ایکنا نیوز- انبیاء و معصومین کے روش میں سے ایک عبرت آموزی ہے، یعنی کسی کام سے عبرت اور درس لینا اور اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ صاحبان قدرت اپنے مخالفین کو ڈرانے کے لیے سرعام سزا دیتے تھے۔
اس اقدام کا مقصد مخالفین کو عبرت ناک انجام سے ڈرانا تھا تاکہ وہ انکی مخالفت سے ڈر کر ہاتھ ہٹا لیں۔
رب العزت حضرت موسی علیه السلام کی داستان میں اس حوالے سے چند واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
دریا نیل میں حضرت موسی علیه السلام اور بنی اسرائیل کے لئے دریا میں راستہ بنانا اور فرعون کو غرق کرانا۔
یعنی فرعون کی فوج دیکھ لیتی ہے کہ کس طرح سے بنی اسرائیل اور پیروان موسی کے لیے دیوار کی مانند سمندر میں راستہ بنتا ہے لیکن پھر بھی موسی کی فوج کا تعقب کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہوتا ہے:
:« إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ ؛ فر عون اور انکے حامیوں کے لیے اس میں عبرت ہے مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔»(شعراء:67)
فرعون کے جنازے کا سالم رہنا
فرعون کے جنازے کو سالم اور دیر تک رہنا باعث عبرت ہے
فرنچ ڈاکٹر موریس بوكای نے فرعون کے جسم پر تحقیق کیا قرآنی فرمودات کی نشانی دیکھ کر انہوں نے اسلام قبول کیا۔
وہ اس حؤالے سے لکھتا ہے: «جب قرآن نے اعلان کیا کہ فرعون کو عبرت کے لیے رکھا گیا ہے تو اس وقت انکا بدن نیل کے اس پار تھا اور کسی کو اس کی اطلاع نہ تھی اور انیسویں صدی میں اس کو دریافت کیا گیا ہے۔
رب العزت نے فرعون کے بدن کو اس کی ہلاکت کے بعد پانی سے نکالا تاکہ اس کا بدن عبرت کے طور پر باقی رہے اور موسی و بنی اسرائیل کی نجات سے لیکر فرعون اور ان کے لشکر کے غرق ہونے تک سب عبرت کے دروس ہیں اگر کوئی سوچتا ہے تو۔