ایکنا نیوز- قرآن کا ایک سورہ «فلق» ہے جو پانچ آیات کے ساتھ تیسویں پارے میں ہے اور یہ مکی سورہ قرآن کے تیسویں پارے میں ہے ۔
اس سورہ کو «فلق» کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے اور اس کا مطلب صبح سویرے ہے۔
پہلی آیت میں رسول گرامی (ص)کو حکم دیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ لیجیے: «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ: کہو میں پناہ لیتا ہوں صبح سویرے کے رب کی».
«فلق» کا مطابق کسی چیز کو سوراخ کرنا اور الگ کرنا ہے اور کیونکہ صبح سویرے رات کی تاریکی کو چیرتے ہوئے نکلتی ہے لہذا یہ فلق کہا گیا ہے۔
دوسری آیت میں مزید حکم دیا گیا ہے اور رسول اکرم کو کہا جاتا ہے : «من شر ما خلق: اور جو شر خلق شدہ ہو». اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نے شر و بدی کو خلق کیا ہے بلکہ شر اس وقت وجود میں آتا ہے جب مخلوق خدائی قوانین سے سرپیچی کرتا ہے اور راستے سے نکل جاتا ہے۔
اور بعد کی آیت میں کہا جاتا ہے: «وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ:
اور رات کی تاریکی سے جب وہ چھا جائے». «غاسق» کا مطلب
تاریکی کا آغاز ہے جب سورخ بجھ جاتا ہے اور رات کی تاریکی کو شر سے جوڑنے کا مطلب ہے کہ رات کی تاریکی میں شر کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ البتہ بعض مفسرین کے نزدیک «غاسق» کا مطلب ہر وہ شر ہے جو انسان کی طرف آتا ہے۔
مزید ایک اور خطرے کی طرف اشارہ ہوتا ہے: «وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ: اور پھونکنے والے شر کی گرہ سے۔ «نفاثات» کا مطلب منہ سے کم مقدار میں لعاب پھینکنا ہے اور یہ کام پھونکنے کے ساتھ ہوتا ہے۔
«نفاثات» کا مطلب «دمیدن» پھونکنا بتایا گیا ہے۔
بہت سے مفسرین کے مطابق «نفاثات» کا اشارہ «خؤاتین جادوگر» کی طرف ہے. وہ کچھ چیزیں زیر لب پڑھتی ہیں اور پھونکتی ہیں تاکہ جادو کریں بعض کے مطابق ان خواتین کی طرف اشارہ ہے جو مسلسل ایسی باتیں کرتی ہیں جس سے انکے شوہر کے ارادے بدل جائے۔
آخری چیز جو اس سورہ میں بیان ہوا ہے وہ حسد ہے، حسد بدترین صفت میں سے ایک ہے اور اس کو دوسری برائیوں کے ہمراہ قرار دیا گیا ہے جو اس کے خطرے کی علامت ہے۔