ایکنا نیوز- ڈاکٹر فرانسوا دروش نے قرآنی انجمن IQSA کے توسط سے «کیٹ ساموئل» سے گفتگو میں اموی دور کے قرآنی نسخوں پر گفتگو کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ان نسخوں نے کافی اثرات چھوڑے ہیں۔
دروش کا کہنا تھا کہ انکا ارادہ تھا کہ اموی دور کے نسخوں پر زیادہ تحقیق کرتے کیونکہ اس دور کے کافی مواد تاریخ میں ریکارڈ نہیں لہذا اسی لیے اس نے اس حوالے سے کام کیا اور دقت نظر کے ساتھ ان نسخوں کا جایزہ لیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ کتاب مصاحف اموی نہ صرف تاریخ نگاری کو خطی نسخوں کے حوالے سے پیش کرتا ہے بلکہ یہ بھی دیکھاتا ہے کہ متن نگاری کے قواعد کافی تیزی سے پیش رفت کرچکا ہے اور دیکھاتا ہے کہ اموی دور کے آغاز میں متن نویسی کافی کمزور تھا۔
دروش کا کہنا تھا: «یہ کتاب تاریخ نگاری کے لیے جدید عناصر کو متعارف کراتی ہے اور دیکھاتا ہے کہ تاریخ نویسی کا مطالعہ اس حؤالے سے کافی اہم ہے، اس کتاب نے اسلامی آرٹ کی تاریخ میں نئی چیزیں پیش کی ہے اور بڑے سطح پر ان چیزوں کا جایزہ لیا ہے.
اس کتاب کا پہلا فایدہ یہ ہے کہ اس میں اموی آرٹ کی بات کی گیی ہے اور قرآن بارے مختلف نظریات کا جایزہ لیا گیا ہے۔
دروش آرزو کرتا ہے کہ کاش وہ اموی دور کے نسخوں کے لیے قانع کنندہ دلائل پیش کرسکتے، انکا کہنا تھا کہ کتاب کے آخری فصل میں بنی امیہ اور عباسی دور کے قرآنی نسخوں کی بات کی گیی ہے۔
اور آخری بات عربی نسخہ «مصاحف بنیامیه» اس پروجیکٹ کا پہلا حصہ ہے جس میں مصنف مصروف ہے اور اس میں مختلف انداز میں تفسیر موجود ہے۔
بعض محققین کا خیال ہے کہ فرانسوا دروش اپنے مطالعات میں قرآن پر سیکولرانہ نظریہ انداز رکھتا ہے اور انہوں نے اپنے مشرق شناس فرنچ کے طور پر کام کیا ہے اور اس کتاب میں دو فایدہ نظر آتے ہیں۔
پہلا یہ کہ بعض مشرق شناس جو کہتے ہیں کہ قرآن چوتھی ہجری سے تعلق رکھتا ہے اس کو رد کرتا ہے۔ دوسرا فایدہ یہ ہے کہ ہمیں قدیم قرآنی نسخوں کی خدمت کی جانب مایل کراتی ہے اور فرانسوا نے جو ایک قدیم ترین نسخے پر کام کیا ہے وہ اموری دور کا پہلا حصہ ہے اور اسکا نام persiano ہے جو قاہرہ کی مسجد عمرو بن العاص سے دریافت ہوا ہے اور انیسویں صدی کے آغاز میں پیرس لایبریری کو ملا ہے۔/