ایکنا نیوز- الجزیرہ سے نقل کردہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پیش آیا۔ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب پانچ صدیوں پرانی ایک تاریخی مسجد کو ہندو مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ مظاہرے بھارت کے دارالحکومت دہلی سے 160 کلومیٹر دور "سامبہل" نامی علاقے میں ہوئے جب ایک عدالتی تحقیقاتی ٹیم مسجد کی جانچ کے لیے پہنچی۔ اس ٹیم کے ہمراہ "ہندوتوا" نامی ہندو انتہاپسند گروہ کے افراد بھی موجود تھے، جو پولیس کے ساتھ مل کر یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ مسجد ایک ایسے مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی ہے جسے مغل دور میں پانچ سو سال قبل تباہ کر دیا گیا تھا۔
مسجد کی جانچ اور تفتیش کی کارروائی عدالت کی درخواست پر کی گئی، جب کہ ہندوتوا گروہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مسجد سولہویں صدی میں مغل حکمرانوں کے دور میں ایک مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں انتہاپسند ہندوؤں کو تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اس تصادم کے دوران پولیس کی فائرنگ سے تین مسلمان نوجوان ہلاک ہوئے، جن میں 28 سالہ نعیم، نوید، اور 25 سالہ محمد بلال انصاری شامل ہیں۔
مقامی عینی شاہدین کے مطابق، تحقیقاتی ٹیم کا تعلق "آر ایس ایس" سے تھا، جو بھارت میں ہندو انتہاپسند اور نیم فوجی تنظیم ہے، اور جس پر مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور مسلمانوں کے خلاف تشدد و قتل کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
عوام نے بھارتی حکام، بشمول عدلیہ، مقامی انتظامیہ اور پولیس پر مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی سازش کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کو مسجد تک مکمل رسائی اور شواہد تلاش کرنے کے اختیارات فراہم کیے گئے ہیں، جس سے ہندو انتہاپسندوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں اور ان کی مساجد اور تاریخی مقامات پر حملے بڑھ گئے ہیں، اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔/
4250342