ایکنا نیوز، نیوز ایجنسی الدراسات الشرقیہ کے مطابق، مشہور اسکاٹش مستشرق ویلیم مونٹگمری واٹ (1909-2006) نے اپنے استاد ریچرڈ بیل کی تصنیف "درآمدی بر قرآن" کی اصلاح اور تشریح کے ذریعے قرآن مجید کے مطالعات میں ایک اہم انقلاب پیدا کیا۔
واٹ کی سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ انہوں نے قرآن مجید کے بارے میں مسلمانوں کے عقائد، خاص طور پر اس کے الہامی ہونے اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر وحی کے نزول کے تصور کو اہمیت دی۔ واٹ سے پہلے کے انگریزی مستشرقین قرآن کو حضرت محمدﷺ کے خیالات کی پیداوار سمجھتے تھے، نہ کہ وحی الٰہی۔
ریچرڈ بیل (1876-1952)، برطانوی مستشرق اور اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسر تھے۔ وہ 1907 سے 1921 کے درمیان کلیسا میں پادری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بیل نے اپنی زندگی کے آخری ایام قرآن کے مطالعہ کے لیے وقف کیے اور 1937 سے 1939 کے درمیان قرآن کے معانی کا ترجمہ شائع کیا۔ 1953 میں انہوں نے "درآمدی بر قرآن" تصنیف کی، جو مغربی قرآنی مطالعات پر گہرے اثرات ڈالنے والی کتاب تھی۔
.
مونٹگمری واٹ، جو بیل کے شاگرد تھے، نے اس کتاب کی اصلاح کی اور اس کے نظریات کو وسعت دی۔
واٹ کے مطابق، قرآن مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالنے والی کتاب ہے۔
واٹ نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن مجید خالصتاً کلامِ الٰہی ہے اور نبیﷺ اس کے محض مبلغ تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نبیﷺ کے اختیار میں نہیں تھا کہ وہ وحی کے متن میں کوئی تبدیلی کریں۔
واٹ نے تسلیم کیا کہ قرآن جیسی کتاب انسانی روح پر گہرا اثر ڈالنے والی کم ہی ہو سکتی ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے روزمرہ کی زندگی، عبادات اور سماجی تعلقات کا حصہ ہے اور اس کا گہرائی سے مطالعہ ضروری ہے۔
مونٹگمری واٹ کے کام نے مغربی قرآنی مطالعات کو ایک نئی سمت دی اور مسلمانوں کے عقائد کے احترام کو اولین شرط قرار دیا۔ ان کا نقطۂ نظر علمی دیانت اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔/
4232591