ایکناء نیوز، الجزیرہ ویب سائٹ کے مطابق محمد المختار ولد احمد کی تحریر کردہ ایک رپورٹ میں ابتدائی اسلامی دور میں اسلامی کتب اور مختلف علوم کی کتابت و نسخہ نویسی کی صنعت کا جائزہ لیا ہے۔ اس رپورٹ کے پہلے حصے میں ذکر کیا گیا کہ تحریر اور کتابت کا رجحان، یا اسلامی معاشروں میں کتاب اشاعت کی صنعت، ان اہم ثقافتی مظاہر میں سے ہے جو اسلامی تہذیب نے انسانی تہذیب کو دیے۔ اس صنعت نے ترقی کے ساتھ کتب کی فراوانی اور عوامی و نجی کتب خانوں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
رپورٹ کے دوسرے حصے کا ترجمہ درج ذیل ہے:
دوسری صدی ہجری کے آخر میں، جیسا کہ ابن خلدون نے اپنی کتاب "المقدمه" میں ذکر کیا، کتابت کی صنعت ترقی اور عروج کی راہ پر گامزن ہوئی۔ تیسری صدی ہجری/نویں صدی عیسوی میں یہ صنعت مختلف شاخوں میں تقسیم ہو گئی جیسے نسخہ نویسی، تصحیح، جلد سازی اور دیگر امور جیسے کاغذ کی خرید و فروخت۔ اس طرح کتابت کی صنعت اندلس میں بھی نمایاں طور پر ترقی کر گئی۔
اس پیشے میں ہزاروں مرد و خواتین، جو معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے، شامل ہو گئے، جیسے علماء، ادباء، شاہی خاندان کے افراد، غلام اور نوکر۔ ان مشہور علماء میں سے ایک امام احمد بن حنبل (متوفی 241ھ/855ء) ہیں، جو طلب علمی کے دوران کتب کی کتابت اور نسخہ نویسی کے ذریعے روزی کماتے تھے۔
فقیہ اور مورخ شمس الدین النویری الشافعی (متوفی 733ھ/1333ء) ان مشہور کاتبوں میں شامل تھے جنہوں نے مختلف علوم کی بے شمار کتابیں نقل کیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صحیح بخاری کو آٹھ مرتبہ نقل کیا، اور ہر نسخہ 1000 درہم (آج کے تقریباً 2000 امریکی ڈالر) میں فروخت ہوتا تھا۔ وہ روزانہ تین جزو (30 صفحات) کتابت کرتے تھے۔
ان بادشاہوں میں جو کتابت کے پیشے سے وابستہ تھے، سلطان نورالدین زنگی (متوفی 569ھ/1173ء) قابل ذکر ہیں، جن کے بارے میں الذہبی نے "تاریخ الاسلام" میں لکھا ہے: "وہ کبھی نسخہ نویسی کرتے اور کبھی جلد سازی۔"
خواتین بھی مردوں کے ساتھ کتابت کے پیشے میں شامل ہو گئیں یا اس کام میں ان کی مدد کرتی تھیں۔ ورقاء بنت ینتان (متوفی 540ھ/1145ء کے بعد) ایک اندلسی نژاد خاتون تھیں، جو ایک بہترین کاتب سمجھی جاتی تھیں۔ ان کی زندگی کے حالات میں ذکر ہے کہ وہ ادیب، شاعر، حافظ قرآن اور خوشنویس تھیں۔
کاتبوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو چھوٹے، قابل حمل کتابچے (آج کے "پاکٹ بکس") لکھا کرتے تھے۔ کاتب اپنی کتابت کی رفتار اور معیار میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے۔ ان کے خط کی خوبصورتی کے لحاظ سے مختلف درجہ بندی کی جاتی تھی، جیسے "خوش خط"، "بدخط" اور "ماہر خوش خط"۔ کچھ کے خطوط کو "خط منسوب" کہا جاتا تھا، یعنی ایسا خط جو مخصوص جیومیٹری تناسبات پر مبنی ہو، اور اس کے اصول ابن البواب بغدادی نے وضع کیے۔
کتابت کے شعبے میں ایک بڑی مشکل علمی سرقہ بھی تھا۔ خوشنویسی اور جلد سازی، جو اندلس اور مراکش میں "تسفیر" کہلاتی تھی، اور کتابوں کی تذہیب و تزئین، ان فنون میں شامل ہیں جو اعلیٰ درجے تک پہنچے اور آج انسان کے بہترین دستکاری فنون میں شمار ہوتے ہیں۔
کتابت کے عروج کے ساتھ، قلم اور سیاہی کے رنگین مرکب بنانے کی صنعت میں بھی ترقی ہوئی۔ اس کے بعد کتابت اور نسخہ نویسی کے اس مرحلے پر طباعت کے آلات کی ایجاد کا آغاز ہوا، اور پندرہویں صدی عیسوی میں گٹنبرگ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کی۔ اس مشین سے پہلا کتاب "صلاة السواعی" 1513ء میں عربی زبان میں چھاپا گیا۔ بعد میں عربی اور اسلامی کتب اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں چھاپی اور شائع کی گئیں، جس سے مسلمانوں کے لیے تاریخی کتب تک رسائی آسان ہو گئی۔/
4252058