ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر سامبال کے مسلمان ایک پرتشدد واقعے کے بعد، جس کا آغاز ایک تاریخی مسجد کو گرانے کے عدالتی حکم پر تحقیقات کے نتیجے میں ہوا، مقامی حکام کی مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں جب انتہا پسند ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد ایک قدیم ہندو مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی ہے، جو تقریباً پانچ صدیوں پہلے تباہ ہوا تھا۔
سامبال، جو دہلی سے 160 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے، کے مسلمانوں نے الزام لگایا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے تحت مقامی حکام نے مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں، جن میں ایک مسجد کے امام کو اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے پر گرفتار کرنا اور مسلمانوں کے خلاف عمارتوں کے قوانین کی خلاف ورزی کے بہانے سخت کارروائی شامل ہے۔
مسلمانوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ماہ پولیس کے ہاتھوں 4 مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد سے شہر میں کشیدگی برقرار ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہندو رہائشیوں نے شاہی مسجد کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ مسجد ایک منہدم ہندو مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی ہے۔
پولیس نے ایک امام کی گرفتاری کا جواز یہ دیا کہ ان کا اذان دینا شور کی آلودگی کے قوانین کے خلاف تھا، کیونکہ قانون کے مطابق مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔
کئی مسلمانوں نے ان اقدامات کو جان بوجھ کر ہراساں کرنے، خوفزدہ کرنے اور انہیں قانون کے نفاذ کے بہانے سماجی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
محمد حکیم الدین، جو سامبال میں متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے کئی بار جا چکے ہیں، نے کہا کہ مسلمان شدید اضطراب میں مبتلا ہیں، کیونکہ ان کے خلاف تحقیقات اور چھاپے جاری ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کئی مسلمانوں کو بجلی چوری کے الزامات کے تحت جرمانہ کیا گیا ہے، اور کچھ کے مکانات یہ جواز دے کر مسمار کیے گئے کہ وہ بغیر اجازت تعمیر کیے گئے تھے۔
4254987