یورپی باشندوں کی آسٹریلیا آمد سے قبل، اس سرزمین کے مقامی لوگ اپنے قدیم اور روایتی عقائد پر عمل پیرا تھے۔ مسیحیت کو یورپی مہاجرین نے آسٹریلیا میں متعارف کرایا، اور جیسے جیسے مختلف اقوام یہاں آباد ہوتی گئیں، مسیحیت کے مختلف فرقے بھی یہاں سرگرم ہوگئے۔
آسٹریلیا میں مذاہب کا ارتقا بیسویں صدی میں، جب چین، جنوب مشرقی ایشیا، ہندوستان اور مشرق وسطیٰ سے چند افراد آسٹریلیا ہجرت کر کے آئے، تو بدھ مت، اسلام اور یہودیت بھی اس ملک میں متعارف ہو گئے۔ آسٹریلیا میں مذہب اور حکومت ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں، اور قانون کے مطابق ہر فرد کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق، آسٹریلیا کی 61 فیصد آبادی نے خود کو مسیحی قرار دیا، جبکہ 22.9 فیصد کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں تھے۔ بودھ مت 2.5 فیصد کے ساتھ دوسرے اور اسلام 2.2 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔
آج، اسلام آسٹریلیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے، اور یہاں تقریباً 5 لاکھ مسلمان آباد ہیں، جو مجموعی آبادی کا 2.2 فیصد بنتے ہیں۔ آسٹریلیا میں مسلمانوں کی موجودگی کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا پہلا گروہ 1860 میں برطانوی حکام کے ذریعے یہاں لایا گیا۔
حالیہ دور میں آسٹریلیا میں بسنے والے زیادہ تر مسلمان ترک نژاد ہیں، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں ہجرت کر کے آئے۔ اس کے بعد لبنانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہوئی، جو اپنے ملک میں جاری خانہ جنگی کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ آج آسٹریلیا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان بستے ہیں، جو زیادہ تر بڑے شہروں جیسے کہ سڈنی، میلبورن اور پرت میں مقیم ہیں۔
آسٹریلیا میں موجود شیعہ برادری کی اکثریت ایرانی، لبنانی، افغان، پاکستانی اور خوجہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
مصطفیٰ اشرفی، جو آسٹریلیا میں مقیم ایک معروف قرآنی شخصیت ہیں، سڈنی میں قائم "ثامن الائمہ" قرآنی مرکز کے سربراہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ مرکز 2002 میں سڈنی میں قائم کیا گیا۔ ان کے مطابق، انہیں یہ مرکز قائم کرنے کی ترغیب امام رضا (ع)، ان کے والد اور والدہ نے دی، جو چاہتے تھے کہ وہ قرآن کی خدمت میں ایک یادگار کارنامہ انجام دیں۔ 2021 میں یہ مرکز باقاعدہ طور پر آسٹریلیا میں رجسٹرڈ ہوا۔
اشرفی کے مطابق، کرونا کے بعد پچھلے تین سالوں میں اس مرکز کی سرگرمیاں مزید وسیع ہوگئیں، اور اس دوران معروف عالمی قاری ہادی اسفیدانی سمیت کئی قاریان کو قرآنی محافل کے لیے مدعو کیا گیا۔
اشرفی کے مطابق، آسٹریلیا میں سب سے زیادہ شیعہ سڈنی میں مقیم ہیں، اس کے بعد میلبورن، برسبین اور دیگر شہروں میں آباد ہیں۔
آج، آسٹریلیا میں 300 سے زائد مساجد اور امام بارگاہیں شیعہ برادری کے زیر انتظام ہیں، اور بعض محلوں میں کئی کئی مراکز موجود ہیں۔
ایک نمایاں اسلامی مرکز حجت الاسلام منصور لقائی نے قائم کیا تھا، جس کا نام "امام حسین (ع) اسلامی مرکز" ہے۔ آج ان کے اہلِ خانہ اس مرکز کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، جہاں دنیا کے مختلف ممالک کے شیعہ افراد آتے جاتے ہیں۔
افغان شیعہ برادری کے مراکز بھی فعال ہیں۔ "الرحمن سینٹر" جو کہ لبنانی شیعوں کے زیر انتظام ہے، بھی ایک سرگرم مرکز ہے، جہاں افتتاح کے موقع پر اشرفی نے تلاوتِ قرآن کا شرف حاصل کیا۔ اسی طرح "الزہراء (س) مرکز" سڈنی میں پہلا شیعہ مسجد ہے، جو 30 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا اور آج بھی ایک نمایاں مذہبی مرکز کے طور پر کام کر رہا ہے۔
آسٹریلیا میں بین المذاہب مکالمے کی سرگرمیاں بھی عام ہیں۔ اشرفی کے مطابق، "نبی اکرم (ص) اسلامی مرکز" میں بین المذاہب مکالمے کی محافل منعقد کی جاتی ہیں، جن میں مسیحی، ہندو اور حتیٰ کہ ملحد افراد بھی شرکت کرتے ہیں۔
اس قسم کی نشستوں میں مسلم اسکالرز کو مدعو کیا جاتا ہے، جو مختلف سوالات کے جوابات فراہم کرتے ہیں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مکالمے کی فضا کو فروغ دیتے ہیں۔/
4263627