ایکنا نیوز، العلم نیوز کے مطابق یہ مسجد "منفوحہ" کے علاقے میں واقع ہے، جو ریاض شہر کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، اور اسے نجدی طرزِ تعمیر کے مطابق بنایا گیا ہے۔
اس مسجد کی عمر 300 سال سے زیادہ ہے اور یہ سن 110 ہجری میں تعمیر کی گئی تھی۔ حال ہی میں اسے "امیر محمد بن سلمان" کے تاریخی مساجد کی بحالی کے منصوبے کے تحت دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔
سعودی عرب کے اُس وقت کے بادشاہ، ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے سن 1364 ہجری قمری میں مسجد القبلی کی تعمیر نو کا حکم دیا تھا۔
مسجد کی پرانی مساحت 642.85 مربع میٹر تھی، جو "امیر محمد بن سلمان" کے منصوبے کے تحت بڑھا کر 804.32 مربع میٹر کر دی گئی ہے۔
یہ مسجد نجدی طرزِ تعمیر میں تعمیر کی گئی ہے، جس میں مٹی، گارے اور دیگر قدرتی مواد کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مقامی ماحول اور گرم صحرائی آب و ہوا کے مطابق جانی جاتی ہے۔
تعمیرِ نو کے بعد، یہ مسجد 440 نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے، اور اس کی توسیع میں اعلیٰ معیار کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔
مسجد القبلی کو گز اور کھجور کے درختوں کے تنے سے بنایا گیا ہے اور اس میں 33 ستون ہیں۔ اسے تین بار دوبارہ تعمیر کیا جا چکا ہے، جن میں سے ایک مرتبہ 1364 ہجری میں ملک عبدالعزیز کے دور میں ہوئی تھی۔
بحالی کے منصوبے میں شامل ماہرین نے لکڑی کے تحفظ کے لیے اسے خشک اور محفوظ بنانے کے اقدامات کیے، تاکہ اسے خراب ہونے اور کیڑوں سے نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔
یہ مسجد سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے تاریخی مساجد کی بحالی کے دوسرے مرحلے میں دوبارہ تعمیر کی گئی ہے، جس کے تحت سعودی عرب کے 13 مختلف علاقوں میں 30 مساجد کی بحالی کا کام کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں ریاض میں 6، مکہ مکرمہ میں 5، مدینہ منورہ میں 4، عسیر میں 3، الشرقیہ میں 2، جازان اور الجوف میں 2-2، جبکہ حائل، نجران، تبوک، الحدود الشمالیہ، قصیم اور باحہ میں 1-1 مسجد شامل ہے۔
یہ منصوبہ روایتی اور جدید طرزِ تعمیر کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ مساجد کے تاریخی عناصر محفوظ رہیں اور ساتھ ہی جدید ترقیاتی تقاضے بھی پورے کیے جا سکیں۔
محمد بن سلمان کا یہ منصوبہ سعودی عرب کی ماہر کمپنیوں کے تعاون سے مکمل کیا جا رہا ہے، جو تاریخی اور روایتی تعمیرات میں مہارت رکھتی ہیں۔ اس منصوبے میں سعودی انجینئرز کو شامل کیا گیا ہے تاکہ ہر مسجد کی اصل تاریخی شناخت برقرار رکھی جا سکے۔/
4269449