خبر رساں ایجنسی (ایکنا) کے مطابق، الجزائر کے شہر اربعاء کی شہداء مسجد کے امام جماعت اور خطیب، ابراہیم عبدالسمیع بوقندوره نے ایک عظیم قرآنی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے قدیم الجزائری خط "نبصور" میں مکمل قرآن کریم تحریر کر کے الجزائری ثقافتی ورثے کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ خط اندلسی رسم الخط سے اخذ شدہ ہے اور ماضی میں علمی مراکز، زوایات اور قدیم مساجد میں استعمال ہوتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال متروک ہو گیا۔
شیخ بوقندوره نے اپنے انٹرویو میں کہا:
"یہ محض ایک خوشنویسی کا منصوبہ نہیں تھا بلکہ ایک ذاتی چیلنج اور ثقافتی ورثے کی احیا کی کوشش تھی جو خطرے میں ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ قرآن کی کتابت کا یہ عمل 38 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔ اس دوران انہیں نہ صرف خط کی اصل خوبصورتی کو برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش تھا بلکہ واضح اور ہم آہنگ طرز تحریر کو بھی یقینی بنانا تھا۔
شیخ بوقندوره نے اس منصوبے کے آغاز میں قرآنی خطاطی کے ماہرین سے مشاورت کی، جنہوں نے انہیں صحیح اصولوں کے مطابق کتابت کے طریقے بتائے۔ اس کام میں الجزائر کے معروف خوشنویسوں جیسے:
· شیخ شیریفی
· شیخ صافار باتی
· شیخ صفیان بزاری
نے ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔
شیخ بوقندوره کے مطابق نبصور خط کا تاریخی پس منظر عثمانی دور کی "ثعالبیہ" پرنٹنگ پریس سے جڑا ہوا ہے، جہاں اسے قرآن و دیگر اسلامی کتب کی طباعت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
"رودوسی مصحف" بھی اسی خط میں شائع ہوا تھا، لیکن جدید پرنٹنگ انڈسٹری کی ترقی کے ساتھ یہ رسم الخط نابود ہونے کے قریب تھا، جسے شیخ بوقندوره نے قرآن کی کتابت کے ذریعے زندہ کیا۔
.
قرآن کی تکمیل کے بعد، اسے الجزائر کی وزارت امور دینی کے مصاحف جائزہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے اس خط کی خوبصورتی اور معیار کو سراہتے ہوئے تجویز دی کہ آئندہ الجزائر میں شائع ہونے والے مصاحف میں اس خط کو شامل کیا جائے۔
شیخ بوقندوره نے کہا:
"جب آپ کا کام قبولیت اور تحسین حاصل کرتا ہے، تو آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ آپ صحیح راستے پر ہیں۔"
انہوں نے اس تجربے کو روحانیت اور فنی مہارت کا امتزاج قرار دیتے ہوئے کہا:
"یہ محض حروف لکھنے کا عمل نہیں بلکہ تفکر، ضبط نفس، اور ہر حرف کے توازن کو برقرار رکھنے کا ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔"
شیخ بوقندوره نے الجزائری نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا:
"ہمارا اسلامی اور ثقافتی ورثہ ایک قیمتی خزانہ ہے جسے محفوظ کرنا اور فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔"
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ قرآنی نسخہ الجزائر کے قدیم رسم الخط کو دوبارہ ثقافتی میدان میں واپس لانے کا آغاز ثابت ہوگا۔
شیخ بوقندوره نے اس کام کو ذاتی کارنامہ نہیں، بلکہ قومی و دینی خدمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس قرآن کو وسیع پیمانے پر شائع کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ محققین، خوشنویسوں اور اسلامی ورثے سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک ریفرنس بن سکے۔
"ثقافتی شناخت کا تحفظ صرف ماضی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ہمارے مستقبل سے بھی جڑا ہوا ہے۔"
آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ ان کا یہ کام ان کے والدین، اساتذہ، اور تمام معاونین کے لیے ایک جاری صدقہ بنے گا اور یہ اللہ کے نزدیک قبول ہو۔/
4272571