«بن‌‌عاشور» مفسر قرآن اور ماڈرن تعلیم کے لیے کاوش

IQNA

گمنام قرآنی محققین

«بن‌‌عاشور» مفسر قرآن اور ماڈرن تعلیم کے لیے کاوش

4:32 - April 05, 2025
خبر کا کوڈ: 3518270
ایکنا: شیخ محمد الطاهربن عاشور، تیونس اور عرب دنیا کے قرآنی اسکالر ہے جو مغربی تسلط کے مخالف ہونے کی وجہ سے معروف ہے۔

ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق شیخ محمد الطاہر بن عاشور 1879 میں تیونس میں پیدا ہوئے اور اصلاح پسند علماء سے متاثر تھے۔ وہ اپنے دور کے مصلحین سے بھی رابطے میں تھے جن میں محمد عبده، شیخ رشید رضا اور شیخ محمد الخضر حسین شامل ہیں۔ ان شخصیات نے تیونس میں تعلیمی اصلاحات میں ابن عاشور کی دلچسپی اور توجہ پر گہرا اثر ڈالا۔

جمال الدین دراویل، جو جامعہ قیروان میں تہذیب اور عقائد کی تاریخ کے استاد ہیں، کے مطابق شیخ ابن عاشور ایک اندلسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کے آباؤ اجداد نے ابتدا میں مراکش کے دارالحکومت رباط کے نواح میں سکونت اختیار کی، اور بعد ازاں تیونس کے دارالحکومت میں منتقل ہوگئے۔ ان کے دادا 19ویں صدی کے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔

تفسیر میں طریقہ کار:

اس تیونسی عالم دین کو معاصر اسلامی اجتہاد کے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ قرآن کریم کے مفسر تھے اور حدیث، زبان، بلاغت اور اسلامی سماجی نظام کے اصولوں کے بارے میں تحریریں رقم کیں۔

محمد بن علی الشتوئی، جو جامعہ الزیتونہ میں فقہا تیونس کے شعبے کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ابن عاشور کی تحریروں اور نظریات میں کئی نمایاں خصوصیات ہیں۔ وہ علم مقاصد (شریعت کے مقاصد) کے میدان میں ایک نئی نظریہ رکھتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی کتاب "مقاصد الشریعۃ الاسلامیہ" لکھی تو ان کا مقصد تھا کہ علم مقاصد کو علم اصول فقہ سے الگ کر کے ایک خودمختار اور اہم علم کی حیثیت دی جائے، لیکن ساتھ ہی اصول فقہ کو ترک بھی نہ کیا جائے۔

جمال الدین دراویل کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ کے ممالک میں شیخ ابن عاشور کے سوا کوئی اور ممتاز مفسر نہیں پایا جاتا۔ انہوں نے اپنی تفسیر کو ایک واضح علمی زاویے سے مرتب کیا جس کا اظہار ان کی کتاب "التحریر و التنویر" کے ابتدائی دس مقدمات میں ہوتا ہے۔ وہاں انہوں نے وضاحت کی کہ قرآن مجید کی تفسیر پر نظر ثانی ایک نئی اور ترقی یافتہ عربی اسلامی ثقافت کی تشکیل کے لیے مرکزی نقطہ ہے۔

ان مقدمات میں ایک اہم بات جسے شیخ ابن عاشور کی تفسیر کا قطب نما قرار دیا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں زبان اور بلاغت کے پہلو کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ شیخ ابن عاشور کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی سورہ کی تفسیر سے پہلے اس کے مجموعی مقاصد کو بیان کرتے ہیں اور جب تک کسی آیت کو زبان، صرف و نحو، اور بلاغت کے پہلو سے اچھی طرح نہ پرکھ لیں، آگے نہیں بڑھتے۔ وہ آیات کے درمیان مضبوط ربط کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں اور اپنی لسانی، فقہی، اور تاریخی مہارتوں کو قرآن کے متن کی تفسیر میں استعمال کرتے ہیں۔/

 

4270773

ٹیگس: قرآنی ، مفسر ، تیونس
نظرات بینندگان
captcha