ایکنا نیو، الجزیرہ نیٹ ورک کی ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں صہیونی قابضین کی جانب سے اسلامی نوادرات اور نایاب مخطوطات کی چوری کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ کا ترجمہ درج ذیل ہے:
مراکشی شہریوں نے، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معمول پر واپسی کے خلاف ہیں، سوشل میڈیا پر شدید غصے، حیرت اور مذمت کا اظہار کیا، جب اسرائیلی قومی کتب خانے نے ایک نادر مراکشی قرآن کے نسخے کی تصویر، جو تقریباً 1000 سال پرانا ہے، اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر شائع کی۔
مراکشی عوام کے غم و غصے میں اس وقت اور اضافہ ہوا، جب مراکش کے قومی آرکائیو کے ڈائریکٹر نے بھی اسی تصویر کو اسرائیلی کتب خانے کے حوالے سے اپنی سوشل میڈیا وال پر دوبارہ شیئر کیا۔
اگرچہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں، تاہم اس نے ایک بار پھر قیمتی مخطوطات کی اصل ممالک سے گمشدگی اور ان کے دیگر جگہوں پر پائے جانے کے معاملے کو اجاگر کیا ہے۔
مراکش کی یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالصمد بلکبیر کا کہنا ہے کہ اس نادر مراکشی مخطوطے کی چوری کا تعلق عالمی صہیونی تحریکوں سے ہے، جو قوموں کی تحقیر کے لیے ہر ممکن طریقہ اپناتی ہیں۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ تحریک ہر شے میں تضاد رکھتی ہے اور ہر دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ اس تحریک کی بنیاد جعل سازی اور ایسے اقدامات پر ہے جو دوسروں کے ضمیر کو مجروح کرتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر، یہ لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمین اور اس میں موجود تمام تر اشیاء کی ملکیت ان کی ہے، خواہ وہ کام بظاہر ثقافتی ہی کیوں نہ لگے۔
احمد ویحمان، جو مراکش میں "روابط کو معمول پر لانے کی مخالفت کرنے والی قومی نگران کمیٹی" کے سربراہ ہیں، کو خدشہ ہے کہ یہ مصحف وہی نایاب نسخہ نہ ہو، جو مراکش کے بنی مرین دور کے سلطان ابوالحسن نے سونے سے تحریر کروا کر مسجد الاقصیٰ میں رکھا تھا، اور بعد ازاں اسے صلاح الدین ایوبی کے بیٹے کے لیے بطور تحفہ بھیجا گیا تھا۔
ویحمان نے مزید کہا کہ صہیونی ریاست کے کتب خانوں میں کئی دیگر مراکشی دستاویزات بھی موجود ہیں، جو مراکش کی ثقافتی اور تمدنی میراث کی منظم چوری کے مترادف ہیں۔ یہ معاملہ تمام مراکشی حکام سے جوابدہی کا تقاضا کرتا ہے۔
بلکبیر نے اس سوال کے جواب میں کہ ان نایاب مخطوطات کو واپس کیسے لایا جا سکتا ہے، کہا کہ یہ مراکش کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قیمتی آثار قدیمہ کی واپسی کے لیے اقدام کرے، چاہے انہیں خریدنا ہی کیوں نہ پڑے، کیونکہ یہ ورثہ انتہائی قیمتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر مراکش نے ایسا کیا تو بین الاقوامی قوانین بھی اس کی حمایت کریں گے۔
یہ چوری صرف ایک نسخے تک محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق، قرآن کے متعدد حیرت انگیز نسخے مختلف مراکشی اور شامی علاقوں سے فلسطین لائے گئے تھے اور انہیں فلسطینی کتب خانوں میں محفوظ کیا گیا تھا، لیکن آج یہ سب اسرائیلی قومی کتب خانوں میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔/
4280065