فلسطین کی حمایت میں سوئیڈش ترانے کی عالمی گونج

IQNA

فلسطین کی حمایت میں سوئیڈش ترانے کی عالمی گونج

4:31 - May 07, 2025
خبر کا کوڈ: 3518445
ایکنا: سوئیڈن کا موسیقی گروپ جو 1970 کے عشرے میں قایم ہوا ہے فلسطین کی حمایت میں انکے ترانے کو عالمی پذیرائی مل رہی ہے۔

ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق جورج توتری کا سادہ سا اپارٹمنٹ، ریٹائرمنٹ کے باوجود، آج بھی زندگی سے بھرپور ہے، کیونکہ وہ اپنی بیٹی اور نواسوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ تاہم، اس اپارٹمنٹ کی ہلکی سرمئی دیواریں ایک عالمی شہرت یافتہ موسیقار کے گھر سے میل نہیں کھاتیں۔

یہ فلسطینی نژاد مسیحی، جو 1946 میں ناصرت (شمالی فلسطین کے ایک شہر) میں پیدا ہوا، اپنے لمبے، سلیٹی بالوں، موٹے چشمے اور گہری نظریں لیے یاد کرتا ہے کہ کس طرح بچپن میں اس کا شہر اسرائیلی چیک پوسٹوں اور غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر سے تبدیل ہو گیا۔

1960 کی دہائی تک ناصرت فلسطینیوں کے بڑھتے ہوئے اندرونی پناہ گزینوں کے درمیان سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ اس شہر کے عیسائی اور مسلمان فلسطینیوں کا متحرک، کثیر مذہبی معاشرہ اور ان کا سیاسی جذبہ جورج توتری کے ایک طاقتور احتجاجی نغمے کے لیے محرک بنا، جو پہلی بار 1970 کی دہائی کے آخر میں شمالی یورپ میں جاری ہوا اور حالیہ عالمی فلسطینی یکجہتی تحریک کے دوران دوبارہ زندہ ہوا۔

1979 میں جاری ہونے والا توتری کا نغمہ "زندہ باد فلسطین" اسرائیل کی 7 اکتوبر 2023 سے غزہ پر جاری وحشیانہ جنگ کے بعد ایک نئی زندگی پا چکا ہے۔ اکتوبر کے آخر میں ایک ابرآلود اور بارانی دن پر، سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں جنگ مخالف مظاہرین نے جمع ہوکر اسی نغمے کو دہراتے ہوئے اسرائیلی بمباری کے خاتمے کا مطالبہ کیا: "زندہ باد فلسطین، مردہ باد صہیونیت، زندہ باد، زندہ باد، زندہ باد فلسطین..."

حکایت جهانی‌شدن ترانه‌ سوئدی در حمایت از فلسطین

 

اس مظاہرے کی ویڈیو تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں یہی نغمہ پس منظر میں بج رہا تھا۔ اکتوبر 2023 سے اب تک یہ ویڈیو ٹک ٹاک پر 50 لاکھ سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے۔ تبصروں میں افغانستان، پاکستان اور ترکی کے صارفین کی طرف سے نغمے کی بھرپور حمایت دیکھنے میں آئی۔

کہانی کا آغاز 1972 میں "کوفیہ" نامی موسیقی گروہ سے ہوا، جس میں پانچ مرکزی فنکار شامل تھے:

  • جورج توتری میشل کورائتم (فلسطینی طبلہ نواز، جن کا خاندان 1948 میں القدس سے ہجرت کر گیا تھا) تین سویڈش موسیقار: کارینا اولسن (گلوکارہ)، بنگت کارلسن (بانسری نواز) اور ماتس لودالو (گٹار، ماندولین اور عود نواز)۔

گروپ کا نام "کوفیہ" فلسطینیوں کی مزاحمت کی علامت چفیہ (کوفیہ) کے نام پر رکھا گیا۔ 1970 کی دہائی میں یہ گروپ ویتنام کی جنگ اور جنوبی افریقہ کے نسلی امتیاز کے خلاف مظاہروں میں موسیقی پیش کرتا رہا۔ اس وقت سویڈن کا شہر گوتنبرگ مزدور طبقے اور بین الاقوامی یکجہتی تحریکوں کا مرکز تھا۔

 
حکایت جهانی‌شدن ترانه‌ سوئدی در حمایت از فلسطین
 

 

یہ گروپ خاص طور پر بائیں بازو کے متبادل موسیقی کے سامعین میں مقبول ہوا جو اس وقت سویڈن میں سوشلسٹ اور سامراج مخالف فضا میں سانس لے رہے تھے۔ تاہم گروپ کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ توجہ ملی۔

1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد، ایرانی انقلابیوں نے فلسطینی آزادی تنظیم کے تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک فلسطینی موسیقی گروپ کو تہران میں مدعو کیا۔ چنانچہ کوفیہ اور ایک چلی کا گروپ (جو اسٹاک ہوم میں مقیم تھا اور سامراج کے خلاف گاتا تھا) نے تہران میں کاروں کی روشنیوں کے سائے میں ایک کھلے میدان میں کنسرٹ دیا۔

فلسطینی جلاوطن موسیقار اور محقق "لویی برہونی"، جو کوفیہ پر ایک مختصر فلم کے ہدایتکار بھی ہیں، کہتے ہیں: "ان کی آواز بے مثال تھی؛ انہوں نے عرب لوک موسیقی کو اسکینڈی نیوین آوازی طرز سے جوڑا۔" ان کے مطابق کوفیہ کا پیغام انقلابی موسیقی، غیر مصالحت پسندی اور قوت کے اظہار کا پیغام تھا۔ ان کے بقول، 1967 میں جب وہ سویڈن آئے، وہاں کے لوگ فلسطین کو ایک صحرا تصور کرتے تھے۔ چنانچہ کوفیہ کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا کہ فلسطینی قوم موجود ہے۔

کوفیہ کے چاروں البمز سویڈش زبان میں گائے اور تیار کیے گئے، اور یہی پہلا گروپ تھا جس نے سویڈش زبان میں فلسطین کے لیے گایا۔

1979 میں جاری ہونے والا نغمہ "زندہ باد فلسطین"، جو سویڈن میں "آہنگِ مظاہرہ" کے نام سے مشہور ہوا، گروپ کے دوسرے البم "میرا وطن" کا آخری گیت تھا۔ اس نغمے نے نہ صرف سویڈن میں اسرائیل مخالف جذبات کو ہوا دی، بلکہ بعض عربوں نے تو سویڈش زبان میں گائے جانے پر بھی تنقید کی۔

 
حکایت جهانی‌شدن ترانه‌ سوئدی در حمایت از فلسطین
 

تاہم آج، 45 سال بعد، یہی نغمہ نئی زندگی اور وسیع تر معنویت حاصل کر چکا ہے۔

لوند یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالبعلم یان لیندسٹروم کے مطابق: "آج کل جب موسیقی تقریباً غیر سیاسی ہو چکی ہے، ’زندہ باد فلسطین‘ ایک انقلابی الہام کی حیثیت رکھتا ہے۔" وہ ان طلبہ میں شامل تھے جنہوں نے سویڈن کی ایک یونیورسٹی میں فلسطینی حمایت میں دھرنا دیا، جسے مئی میں پولیس نے ختم کر دیا۔

1970 کی دہائی میں بائیں بازو کے سویڈش افراد کوفیہ کے بڑے حامی تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے یہودی بھی اس گروپ کی حمایت کرتے تھے۔ آج، پانچ دہائیوں بعد، جب توتری موسیقی کو ایک مزاحمتی قوت کے طور پر بیان کرتا ہے، اس کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔ "زنده باد فلسطین" کا ترانہ ایک سادہ مگر طاقتور احتجاجی نعرے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

توتری کہتے ہیں: "یہ ایسا نغمہ ہے جو دنیا بھر کے مظاہروں میں گایا جاتا ہے۔ میں نے اس گانے میں یہی طریقہ اپنایا کہ ہم بطور فلسطینی اپنا وجود ثابت کریں۔"

اگرچہ سویڈن نے 2014 میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور 2015 سے یہاں فلسطینی سفارت خانہ قائم ہے، مگر موجودہ دائیں بازو کی حکومت اسرائیل کی کھلی حمایت کرتی ہے۔

توتری کہتے ہیں: "جب تک نفرت باقی ہے، امید نہیں ہو سکتی۔" ان کے مطابق، ماضی میں کئی تحریکیں ابھریں اور ختم ہو گئیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ موجودہ عالمی احتجاج کی رفتار بھی کم نہ پڑ جائے۔

وہ متنبہ کرتے ہیں کہ خودجوش اقدامات دیرپا نہیں ہوتے اور مظاہرین سے اپیل کرتے ہیں کہ "گلیوں کی توانائی" کو فلسطینی اداروں کی تعمیر نو کی کوششوں میں بدلا جائے، خواہ وہ سماجی، حکومتی یا ثقافتی شعبے میں ہو۔

آخر میں وہ کہتے ہیں: "گیت اُن سب کے لیے ہیں جو اپنی آزادی کے لیے لڑنا چاہتے ہیں۔ ’زنده باد فلسطین‘ صرف مسلمانوں یا فلسطینیوں کے لیے نہیں؛ یہ دنیا کے تمام مظلوموں کے لیے ہے۔ اور یہی بات مجھے سب سے زیادہ خوشی دیتی ہے۔"

 

4280359

نظرات بینندگان
captcha