ایکنا نیوز- ٹی آر ٹی نیوز کے مطابق 1200 سے زائد اساتذہ، سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے آشوکا یونیورسٹی کے مسلمان استاد کی حمایت کی ہے جنہیں حالیہ بھارت-پاکستان جھڑپ سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔
حمایت کرنے والوں نے ایک کھلا خط (اوپن لیٹر) پر دستخط کیے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس استاد کی ساکھ کو خراب کرنے اور گمراہ کن معلومات پھیلانے کی مہم کا خاتمہ کیا جائے۔
اس خط میں سیاسیات کے اس استاد کی گرفتاری کو غیر منطقی اور ناانصافی قرار دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے اندھی جنگی خونخواری کے خلاف بات کی۔
خط میں مزید کہا گیا ہے: "محمودآباد نے ایک استاد، شہری اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنے والے فرد کی حیثیت سے صرف اپنا فرض ادا کیا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔"
محمودآباد نے بھارت کی جانب سے 7 مئی کو پاکستان پر فضائی حملوں کے ایک دن بعد فیس بک پر ایک پوسٹ میں جنگ کے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا: "شاید جنگ کے حامی اتنی ہی بلند آواز سے یہ مطالبہ بھی کر سکیں کہ اجتماعی قتل عام، من مانے تشدد اور اسلاموفوبیا و نفرت انگیزی کا شکار دیگر افراد کو بطور بھارتی شہری تحفظ دیا جائے۔"
انہوں نے مزید لکھا: "آپ دراصل چاہتے کیا ہیں؟ ایک پوری قوم کی نسل کشی؟ کیا ہم واقعی بچوں کے قتل عام کی حمایت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مستقبل کے ممکنہ دشمن ہو سکتے ہیں؟" انہوں نے بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں کو پاکستانیوں کی غیر انسانی تصویر پیش کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ یہ رویہ جنگ اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سبب بن رہا ہے۔
چند دن بعد محمودآباد کو ان پوسٹس کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ خط میں ریاست ہریانہ کی ویمن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شکایت واپس لے اور محمودآباد سے معافی مانگے۔ اس کے ساتھ ساتھ آشوکا یونیورسٹی سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس استاد کے ساتھ کھڑی ہو، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ صرف ایک استاد، شہری اور امن پسند انسان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔/
4283628