ایکنا نیوز- خانۂ خدا کے زائرین اس سفر میں صبر، درگزر، مہربانی، ادب، صداقت، احسان اور تواضع جیسی صفات کی مشق کر کے اپنے نفس کو سنوارتے ہیں اور خیرخواہی، سخاوت، زہد اور آزادگی جیسے اوصاف کو اپنے اندر پروان چڑھاتے ہیں۔
یہ تربیتی سفر، مقدس مقامات سے تعلق اور مؤمنوں کے ساتھ ہمنشینی کے سائے میں تشکیل پاتا ہے؛ جیسا کہ قرآن کی آیت "لِیَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ" (تاکہ وہ اپنے لیے فائدے حاصل کریں) میں دلوں کا اللہ کی جانب مائل ہونا اور حج کے تربیتی اثرات مراد ہیں۔
حج، اپنے مخصوص احکام اور ممنوعات کے ذریعے انسان کی روحانی قوتوں کی تطہیر کا ذریعہ بنتا ہے: "لا رَفَث" شہوانی خواہشات کی پاکی کے لیے، "لا فُسوق" غصے پر قابو اور غضبی قوت کی تطہیر کے لیے، اور "لا جِدال" فکری و زبانی اصلاح کے لیے ہے۔
نرمی، گالی گلوچ سے پرہیز، سخت لہجے سے گریز، غصے اور ناراضگی کو ضبط کرنا، مہذب گفتگو، حتیٰ کہ دوسروں کی ایذا رسانی کو برداشت کرنا—یہ سب خوش اخلاقی کی نشانیاں اور ایک عارف حج گزار کی صفات ہیں۔ شاید حج کی ایک اہم حکمت یہی ہو کہ انسان حسن اخلاق، نرمی اور خوبصورت گفتگو کی مشق کرے؛ خصوصاً وہ افراد جو ایک ہی قافلے میں مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں، انہیں چاہیے کہ آپس میں محبت، نرمی اور خیرسگالی سے پیش آئیں اور سفر کی سختیوں اور دشواریوں کو حسن اخلاق کے ساتھ جھیلیں۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کے نزدیک، حج کا بنیادی مقصد خدا کے حضور حاضری اور گناہوں و شہوتوں سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ قساوت، بخل، غفلت، ناامیدی اور روحانی آلودگیوں کو ترک کرنا، حج کی وہ حکمتیں ہیں جو انسان کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز بن سکتی ہیں۔ مرحوم ملکی تبریزی نے بھی حج کو ایک الٰہی دوا قرار دیا ہے جو دل کی بیماریوں کا علاج ہے؛ حج پر خرچ کرنا بخل کا علاج، طواف اور نماز میں عاجزی اختیار کرنا تکبر کا علاج ہے۔