محسن پاکآیین، جو کہ ایران کے سابق سفیر اور آذربائیجان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر رہ چکے ہیں، نے خبررساں ادارے ایکنا سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے مقاصد اور ممکنہ منظرناموں پر روشنی ڈالی اور کہا: اسرائیلی حکومت، جو کہ غزہ میں نسل کشی اور فلسطینی عوام پر مسلسل مظالم کے باعث عالمی برادری اور رائے عامہ میں نفرت کا نشانہ بن چکی ہے، نے اپنی شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اب اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کر کے ایک نئی جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے رہائشی علاقوں پر بمباری اور ہمارے جانباز کمانڈروں اور ایٹمی سائنسدانوں کے قتل کے ذریعے اپنی داخلی اور خارجی مشکلات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور ان مسائل کو مقبوضہ علاقوں سے باہر منتقل کرنا چاہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ایران پر یہ وحشیانہ حملہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ یہ حملہ یقینی طور پر امریکہ کی رضا مندی سے انجام پایا ہے۔ ٹرمپ یہ سمجھتے تھے کہ دباؤ اور دھمکی کے ذریعے وہ ایران کو مذاکرات میں رعایت دینے پر مجبور کر سکتے ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے اسرائیل کو اکسانے میں کردار ادا کیا۔
پاکآیین نے مزید کہا: اس حملے کی ایک اور وجہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی قرارداد ہے جو برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی حمایت اور ایجنسی کے سربراہ کی سیاسی جانب داری کے ساتھ منظور ہوئی۔ اسرائیل کے ایران کے ایٹمی مراکز پر حملے کے بعد رافائل گروسی کا جانبدارانہ سکوت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس غیر قانونی اقدام سے راضی ہیں۔
انہوں نے آپریشن "وعده صادق ۳" کی کامیابی اور اس کے تسلسل پر بات کرتے ہوئے کہا: یہ آپریشن مکمل طور پر کامیاب رہا ہے اور اپنے اہداف حاصل کر چکا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے ذرائع ابلاغ کو اس کی تباہ کاریوں دکھانے سے روک دیا ہے، لیکن جو خبریں غیر ملکی ذرائع اور سفارتخانوں سے ہمیں ملی ہیں، ان کے مطابق اسرائیل تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب پہلے فرما چکے ہیں: "اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو ہم تل ابیب اور حیفا کو تباہ کر دیں گے" — اور اب واقعی تل ابیب اور حیفا اسی حال میں ہیں۔
سابق سفیر نے قومی اتحاد اور میڈیا کے کردار پر ایک سوال کے جواب میں کہا: اگرچہ ہمارے جانباز کمانڈروں، عظیم ایٹمی سائنسدانوں اور نہتے شہریوں کی شہادت بہت بڑا صدمہ ہے، لیکن اسرائیل کا جنگ کو مقبوضہ علاقوں سے باہر لے جانے کا اقدام اس کے لیے سخت سزا اور پے در پے شکستوں کا باعث بنے گا، اور ایران عزیز کا دفاعی پرچم ہمیشہ بلند رہے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ ایران کے ایٹمی ایندھن کا چکر بدستور جاری رہے گا، اور ہمارے شہید سائنسدانوں کی غیر موجودگی نے اس راہ کو نہ صرف روکا نہیں بلکہ ترقی دی ہے۔ اس موقع پر قومی اتحاد، عوام، قلم و بیان کے حامل افراد کی طرف سے مسلح افواج کی مکمل حمایت اور دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈے و افواہوں پر توجہ نہ دینا، معاشرے کی بالغ نظری کی نشانی ہے، جو دشمن کے نفسیاتی حملوں کو ناکام بنا دے گا۔
آذربائیجان میں ایران کے سابق سفیر سے جب پوچھا گیا کہ صیہونی حملوں کے پیش نظر، ایران کی جانب سے مذاکرات کے چھٹے دور سے قبل بات چیت کا معطل کیا جانا، امریکہ کے خود فریب صدر کے لیے کیا پیغام رکھتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہم نے امریکہ کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے غیر مخلص رویے دیکھے ہیں۔ ایک طرف امریکہ مذاکرات کی بات کرتا ہے اور نتائج کی امید ظاہر کرتا ہے، اور دوسری طرف اسرائیل کو بھڑکاتا اور اسلحہ فراہم کر کے ایران پر حملے کے لیے تیار کرتا ہے۔
پاکآیین نے آخر میں امریکہ و اسرائیل کے درمیان کردار کی تقسیم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس تقسیم کے مطابق اسرائیل دباؤ کا ہتھیار ہے، تاکہ فوجی دباؤ سے ایران کو مذاکرات میں مزید رعایت دینے پر مجبور کرے، جبکہ امریکہ نرم رویے اور مصنوعی مسکراہٹ کے ذریعے ایران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ان کے یہ ہتھکنڈے ایران کو مذاکرات جاری رکھنے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ مذاکرات کا التوا یا ان کا خاتمہ ایک عقلمندانہ اور درست فیصلہ ہے، اور ہمیں امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری نہیں رکھنی چاہیے تھی۔