امام حسین (ع) قرآن کریم میں (1)

IQNA

امام حسین (ع) قرآن کریم میں (1)

5:39 - July 02, 2025
خبر کا کوڈ: 3518729
ایکنا: قرآنی آیات میں براہ راست راست امام حسین (ع) کی شخصیت پر اشارہ موجود ہے جبکہ بعض دیگر آیات کے مصداق امام عالی مقام ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایکنا نیوز- امام حسین علیہ السلام کا قیام، یزید کی حکومت کے خلاف ایک عظیم واقعہ اور حماسی تحریک تھی، جس کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ اسلام میں امر ہو گیا۔ امام حسین علیہ السلام، اس عظیم قیام کے بانی، وہ شخصیت ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے دوران دنیا میں آنکھ کھولی اور نبی اکرم اور ان کے والد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی گود میں پرورش پائی۔ اسی لیے اگرچہ وہ بچپن میں تھے، لیکن قرآن کریم کے نزول کے دور میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔

قرآن مجید کی بعض آیات براہِ راست امام حسین علیہ السلام کے عظیم مقام کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جبکہ کچھ دیگر آیات ایسے مفاہیم اور حقائق کو بیان کرتی ہیں جن کا واضح مصداق امام حسین علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ میں پایا جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک آیت آیہ مودّت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏" (ترجمہ: "کہہ دو! میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، سواے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔" [الشورى: 23])

محدثین جیسے احمد بن حنبل، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے پوچھا: اے رسول خدا! وہ کون لوگ ہیں جن سے محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور ان کے دو بیٹے حسن و حسین علیہم السلام۔

ایک اور آیت جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی، وہ آیت تطہیر ہے:

"إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً" (ترجمہ: "بے شک اللہ کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کی ناپاکی دور کرے اور تمہیں مکمل طور پر پاکیزہ بنائے۔" [الأحزاب: 33])

شیعہ اور اہل سنت دونوں کے معتبر منابع میں موجود متعدد احادیث کی روشنی میں اہل بیت سے مراد فاطمہ، علی، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں۔ مثال کے طور پر، امّ سلمہ (زوجہ رسول) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اپنے شوہر اور بچوں کو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ سب آگئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی۔

اسی طرح آیت مباہلہ بھی امام حسین علیہ السلام کی عظمت کو اجاگر کرتی ہے۔ مباہلہ کے واقعہ میں، نجران کے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مناظرہ کیا، اور آخرکار یہ طے پایا کہ دونوں جانب کے افراد اپنی اپنی اہلِ خانہ کو لے آئیں اور خدا سے جھوٹوں پر لعنت کرنے کی دعا کریں۔ قرآن کہتا ہے:

"فَمَنْ حاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ..." (ترجمہ: "پھر جو کوئی تم سے اس (عیسیٰ کے بارے میں) بحث کرے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تو کہہ دو: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنی جانوں کو اور تم اپنی جانوں کو، پھر ہم مباہلہ کریں..." [آل عمران: 61])

متعدد متواتر روایات کے مطابق، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر صرف علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لایا۔ لہٰذا، اس آیت میں "ابناءنا" (ہمارے بیٹے) سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔

نظرات بینندگان
captcha