ایکنا نیوز- الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اس نئے قانون میں اسلامی وقف کے نظام پر حکمرانی کرنے والے قانونی و انتظامی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات شامل کی گئی ہیں۔
اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان اصلاحات کا مقصد وقف کے انتظام میں شفافیت اور کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، لیکن اس قانون نے قانونی حلقوں، علمی اداروں اور مسلم کمیونٹی میں زبردست ہلچل مچائی ہے۔
بھارت کے مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی کے ارکان اور اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون پر تشویش ظاہر کی ہے کہ یہ بھارتی آئین کی ضمانت شدہ مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ اقلیتوں کے مذہبی اداروں کے انتظامات کے حق اور مساوات و کثرتیت کے اصولوں سے متصادم ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف کے خودمختار کردار کو کمزور کرنے، بھارتی مسلمانوں کو مزید حاشیے پر دھکیلنے اور ان کی وقف جائیدادوں پر حکومتی کنٹرول بڑھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر اس قانون کی وہ شق قابل اعتراض قرار دی جا رہی ہے جس کے تحت غیر مسلموں کو بھی مسلم وقف اداروں کے انتظام میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
تنقید کرنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ اس قانون سے کمیونٹی کی شمولیت ختم ہو جائے گی، جس کے سماجی اور قانونی اثرات مسلم آبادی کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ یہ وہ کمیونٹی ہے جو تعلیم، عبادات، تدفین، فلاحی سرگرمیوں اور غریبوں کی مدد جیسے اہم شعبوں میں وقف اداروں پر انحصار کرتی ہے۔
بھارت میں اسلامی وقف کا نظام تیرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں قائم ہوا، جب سلطان معزالدین محمد بن سام غوری نے ملتان میں جامع مسجد کی تعمیر کے لیے بڑی زمین وقف کی۔ اس کے بعد وقف جائیدادوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔
مسلمانوں نے وقف کی جائیدادوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق منظم کیا اور ان کی آمدنی کو اسکولوں، مساجد، تعلیمی اداروں، قبرستانوں، صحت کے مراکز اور دیگر فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کیا، تاکہ مسلم معاشرے کی خدمت کی جا سکے۔
4293950