ایکنا نیوز- ایک یونیورسٹی کے استاد نے بیان کیا کہ امام سجاد علیہ السلام، دعا اور بصیرت کے لباس میں قیامِ عاشورا کے احیا کنندہ تھے۔ اُنہوں نے دعا کو ایک ایسا مؤثر ذریعہ بنایا جس کے ذریعے دینی، اعتقادی، اخلاقی بلکہ سیاسی معارف کو بھی بیان فرمایا۔ آپ دینی مفاہیم کو اس انداز میں دعا کے قالب میں بیان فرماتے کہ وہ دلوں میں اتر جاتے اور بیداری و آگاہی کا باعث بنتے۔
واقعہ عاشورا کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے مبارزاتی طریقہ کار پر گفتگو کرتے ہوئے حجۃالاسلام یحییٰ اصغری، جو کہ خمینی شہر میں بنیادِ نہج البلاغہ و صحیفہ سجادیہ کے سربراہ اور یونیورسٹی کے استاد ہیں، نے تفصیل سے گفتگو کی۔
ایکنا: امام سجاد علیہ السلام نے واقعہ عاشورا کے بعد شیعہ تحریک کے تسلسل میں اہم کردار ادا کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا طریقۂ مبارزہ دیگر آئمہ کرام سے مختلف تھا۔ اس فرق اور امامؑ کی حکمت عملی کی وضاحت کیجیے۔
حجۃالاسلام یحییٰ اصغری: امام سجاد علیہ السلام کی امامت کا دور تقریباً 35 سال پر محیط رہا۔ آپ نے عاشورا کے قیام اور پیغام کو محفوظ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ اموی حکومت کی منافقانہ پروپیگنڈا مشینری کے مقابلے میں امام حسینؑ کے پیغام کو زندہ رکھا جا سکے۔
اموی خلفاء امام حسین علیہ السلام کو دین سے بغاوت کرنے والا شخص ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اُن کی شہادت کو ایک ناگزیر یا جبری انجام کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اس کے برعکس، امام سجاد علیہ السلام نے کوفہ، شام اور مدینہ میں اپنی پُرجوش خطبوں کے ذریعے حقیقت کو عوام کے سامنے واضح کیا۔
اُن کے اقدامات میں شامل ہیں:
· شہدائے کربلا پر مسلسل گریہ،
· تربت امام حسینؑ پر سجدہ،
· زیارتِ سیدالشہداءؑ پر زور دینا،
· پانی پیتے وقت شہداء کی یاد،
· والدِ گرامی کی انگوٹھی کا ہمراہ رکھنا۔
یہ تمام اعمال معاشرے میں جہاد و شہادت کی روح زندہ رکھنے کے لیے تھے۔ امامؑ نے اپنی پھوپھی حضرت زینب سلاماللہعلیہا کے ساتھ مل کر، ابن زیاد اور یزید کے دربار میں امام حسینؑ کے راستے کی حقانیت کا دفاع کیا، یہاں تک کہ امامؑ کے خطابات اور طرزِ عمل کا اثر ایسا ہوا کہ یزید نے خود کو اس سانحے کی ذمہ داری سے بری کرنے کے لیے اس کا الزام ابن زیاد اور اس کے کارندوں پر ڈال دیا۔
ایکنا: امام سجادؑ نے عاشورا کے بعد مسلح جدوجہد کے بجائے غیرمسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا، جس میں دعا ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی۔ ان دعاؤں کے سماجی و سیاسی اثرات کیا تھے؟
حجۃالاسلام یحییٰ اصغری: امام سجاد علیہ السلام نے دعا کو دینی، اعتقادی، اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کی تشریح کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بنایا۔ مثال کے طور پر، دعائے مرزداران میں گہرے سیاسی و سماجی مضامین موجود ہیں جن پر مزید تحقیق و توجہ کی ضرورت ہے۔
آپ نے دعا کو اس انداز میں مرتب کیا کہ یہ نہ صرف دلوں پر اثر انداز ہو بلکہ معاشرتی بیداری کا ذریعہ بھی بنے۔ اسی طرح، امام سجاد علیہ السلام کی "رسالۂ حقوق" ایک جامع فقہی و اخلاقی دستاویز ہے جس میں انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
یہ تمام آثار دراصل خلافتی نظام کی طرف سے معاشرے میں پیدا کی گئی بدعتوں اور انحرافات کے خلاف ایک ذہین، خاموش لیکن مؤثر علمی و فکری جہاد تھے۔
4293021