دس محرم کو حضرت امام حسین ؓ پر عقیدتیں نچھاور کی جا رہی تھیں تو مجھے ایک فلم یاد آ رہی تھی جسکا نام ’’بلڈ آف حسین‘‘ تھا ، جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس فلم پر پابندی لگا دی تھی لیکن میں نے یہ فلم اپنے والد محترم پروفیسر وارث میر کے ہمراہ اُنکے ایک دوست کے گھر دیکھی تھی، والد صاحب نے اس فلم کا ذکر اپنے کالم میں کیا تو ایک طوفان آ گیا تھا۔
یہ اکتوبر 1985ء کا قصہ ہے جب پاکستان میں جرنیلی جمہوریت عروج پر تھی، فروری 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو وزیراعظم بن چکے تھے اور صدر کا عہدہ ایک باوردی جرنیل جنرل محمد ضیاء الحق کے پاس تھا ۔
مارشل لا اور جمہوریت کو ساتھ ساتھ چلایا جا رہا تھا لہٰذا حکومت کی آئینی و قانونی حیثیت مشکوک تھی، 23 اکتوبر 1985ء کو روزنامہ جنگ میں پروفیسر وارث میر کا ایک کالم’’حسینی شعور اور حق حکمرانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں فلم ’’بلڈ آف حسین‘‘ کا بھی ذکر تھا ۔
جب یہ فلم مکمل ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے، دلچسپ پہلو یہ تھا کہ’’بلڈ آف حسین‘‘مارشل لا کیخلاف بنائی گئی تھی، اُس زمانے میں سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان حکومت کے مشیر برائے قومی سلامتی کے طور پر کام کر رہے تھے، انہیں ایک خفیہ ادارے نے اطلاع دی کہ بلڈ آف حسین کے نام سےایک فلم بنائی گئی ہے جس میں حکومت کے خلاف بغاوت کی ترغیب دی گئی ہے۔ ٹکا خان نے فوری طور پر وزیر اعظم کو ایک نوٹ بھیجوایا کہ اس فلم پر پابندی لگا دی جائے ۔
یہ فلم دو بھائیوں کی کہانی تھی، ایک کا نام سلیم اور دوسرے کا نام حسین تھا سلیم ایک جابر اور ناجائز حکومت کا ساتھی بن جاتا ہے جبکہ حسین جبر و استبداد کیخلاف مزاحمت کرتا ہوا شہید ہو جاتا ہے، مارشل لا حکومت نے فلم پر پابندی لگائی تو جمیل دہلوی فلم کا پرنٹ لیکر لندن پہنچ گئے، اُس وقت وارث میر بھی لندن میں تھے۔
اس فلم کو رکوانے کی بہت کوشش ہوئی لیکن یہ فلم چینل فور پر ریلیز ہو گئی، پاکستان میں اس فلم کو چھپ چھپ کر وی سی آر پر دیکھا جاتا تھا، فلم کا موضوع حضرت امام حسین ؓ نہیں تھے لیکن وارث میر کے کالم کا موضوع حضرت امام حسینؓ کی فکر تھی۔
انہوں نے لکھا کہ معرکہ کربلا میں فتح تو یزید کی فوج کو ملی لیکن عزت و توقیر حضرت امام حسینؓ کو ملی،لہٰذا طاقت اور قوت کبھی حق نہیں بن سکتی بلکہ حق تو بذات خود طاقت اور قوت ہے، اس کالم کی اشاعت کے بعد پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ذریعے والد صاحب کو سیاسی کالم لکھنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
انہیں ایک شو کاز نوٹس دیا گیا جسکا جواب ایس ایم ظفر صاحب کے ذریعے دیا گیا، میں اُن دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا طالبعلم تھا اور میں نے اسلام آباد کے انگریزی اخبار ’’دی مسلم‘‘ میں کیمپس ڈائری لکھنی شروع کر دی تھی، ایک دن میری والدہ نے بڑے فخر سے والد صاحب کو ’’دی مسلم‘‘ میں شائع ہونیوالی میری تحریر دکھائی تو وہ خاموش ہو گئے۔
پھر اُنہوں نے علیحدگی میں مجھے کہا کہ میں صحافت کا اُستاد ضرور ہوں لیکن مجھے میری تحریروں کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا ہے انہیں نظر انداز مت کرو، اُنہوں نے انتہائی پریشان لہجے میں سمجھانے کے انداز میں کہا کہ بیٹا صحافی بننے کا خیال دل سےنکال دو کیونکہ پاکستان میں صحافت بہت مشکل ہو چکی ہے۔
حکومت پنجاب کے سابق ڈی جی پی آر ڈاکٹر اسلم ڈوگر اُنکے شاگرد خاص تھے، والد صاحب نے ڈوگر صاحب کو کہا کہ آپ کسی دن گھر آئیں تو میرے بیٹے کو سمجھائیے گا کہ اس ملک میں حقیقی صحافت ممکن نہیں رہی، دراصل میرے والد جن مشکلات سے گزر رہے تھے اُن کا خود تو بہادری سے مقابلہ کر رہے تھے لیکن مجھے اُن مشکلات سے دور رکھنا چاہتے تھے، انہیں بلیک میل کرنے کیلئے میرے چھوٹے بھائی فیصل میر پر قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ بنایاگیا اور مقدمہ بنانے سے قبل انہیں وائس چانسلر ہاؤس میں بلا کر کہا گیا کہ جنرل ضیاء کے شریعت بل کی مخالفت بند کر دو، انکار پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔
والد صاحب اپنے بیٹے کی ضمانت کیلئے محمود مرزا اور اعجاز بٹالوی کیساتھ عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے لیکن انہوں نے کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا، 18ستمبر 1986ء کو روزنامہ جنگ میں اُنکا کالم ’’ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے " شائع ہوا جس میں انہوں نے ناجائز حکومتوں کیخلاف مزاحمت کی جو مثالیں بیان کیں وہ حضرت امام حسینؓ،امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی تھیں ۔
پاکستان کی درباری سیاست، اور صحافت کے بارے میں اُنکے لکھے گئے کالموں کا ایک مجموعہ’’فلسفہ خوشامد‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے ، اس کتاب میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ ایک بزرگ صحافی کے ذریعہ پر و فیسر وارث میر کو پیغام دیا گیا کہ اپنے قلم کو لگام دو یہ پاکستان ہے انگلینڈ یا امریکا نہیں۔
یہاں 50فیصد اہلیت کیساتھ 50فیصد خوشامد کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ حسینی شعور تھا جس نے وارث میر کو اپنے قلم اور ضمیر کا سودا کرنے سے روک دیا ، اُنکے ایک ہم عصر صحافی سید انور قدوائی نے گواہی دی کہ ایک دفعہ جنرل ضیاء نے پروفیسر وارث میر کے ساتھ ملاقات بھی کی لیکن وارث میر اُنکے دام میں نہیں آئے ۔
فوجی ڈکٹیٹر انہیں اپنا مشیر بنا کر اپنی ناجائز حکومت کے چہرے کو تھوڑا خوبصورت بنانا چاہتا تھا لیکن وارث میر نے انکار کر دیا، اس انکار نے انکی زندگی مشکل کر دی ۔ اُن کے پاس پورے خاندان سمیت ایک مغربی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا آپشن موجود تھا، انہوں نے یہ آپشن بھی مسترد کر دیا ۔
ایک دن انکے بچپن کے دوست علامہ احسان الہٰی ظہیر ہمارے گھر تشریف لائے اور والد صاحب کو خبردار کیا کہ انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اس لئے محتاط رہو ، تھوڑے دن بعد علامہ احسان الہٰی ظہیر ایک بم دھماکے کا نشانہ بن گئے، 9 جولائی 1987ء کو انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، لکھنے سے قاصر تھے۔
ایک رات قبل اپنا آخری کالم اپنے بیٹے عامر میر کو ڈکٹیٹ کروا چکے تھے جس میں جنرل ضیاء کی طرف سے ترقی پسند فکر کو سیم و تھور قرار دینے پر موصوف کو جواب دیا گیا تھا، والد صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ میرا کوٹ لیکر آؤ، میں اُنکا کوٹ لایا تو اُسکی ایک جیب سے آٹھ دس ہزار روپے نکال کر کہا یہ رکھ لو آج تمہیں ضرورت پڑیگی۔
طبیعت مزید بگڑی تو میں انہیں شیخ زید اسپتال لے گیا ، ڈاکٹروں نے اُنہیں آکسیجن ماسک لگایا تو اُنہوں نے ماسک پرے ہٹا کر زور زور سے کلمہ پڑھا اور جان دیدی ، موت کے بعد اُنکے چہرے کا رنگ نیلا پڑ گیا ۔ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی پوسٹ مارٹم کرانا چاہتی تھیں لیکن 9 جولائی کی سہ پہر تک انھیں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔
کچھ دن بعد میں نے والد صاحب کے آخری لمحات پر ایک تحریر لکھ کر روزنامہ جنگ کو بھجوائی جو شائع ہو گئی، اس تحریر پر میرے دادا جناب میر عبد العزیز نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ والدہ کی بھی خواہش تھی لہٰذا میں صحافت میں آگیا، آج سوچتا ہوں والد صاحب صحیح کہتے تھے ، پاکستان میں صحافت آج بھی بہت مشکل ہے۔
وارث میر جیسے صحافیوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم اور زبان سے ایک ظالم اور ناجائز حکومت کو شکست نہیں دے سکتے لیکن وہ لڑتے لڑتے اپنی جان دے دیتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی موت میں ہی اپنی فتح نظر آتی ہے، حسینی صحافت واقعی بہت مشکل اور ظالم حکومتوں کا منظور نظر بننا بہت ہی آسان ہوتا ہے۔
بقلم: حامد میر