بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے جج نے ملائیشیا کے مقابلوں میں ججمنٹ کی کرسی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس منصب کو مستقبل میں محفوظ رکھنا نہایت اہم ہے؛ چاہے یہ کرسی میرے پاس ہو یا کسی اور کے پاس۔"
ملائیشیا کے بین الاقوامی قرآنی مقابلے تقریباً دو دہائیوں سے ایرانی ججز کی شرکت سے محروم رہے۔ اب نصف جہان (اصفہان) سے تعلق رکھنے والی جانی پہچانی قرآنی شخصیت، غلامرضا شاہ میوہ اصفہانی، نے اس خلا کو پُر کر دیا ہے۔ یہ قرآنی ماہر، مدرس اور مقابلوں کے تجربہ کار داور، ملائیشیا کی حکومت کی رسمی دعوت اور کئی ماہ کی جانچ پڑتال کے بعد، 65ویں بین الاقوامی قرآنی مقابلے میں شرکت کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ صرف ان کی ذاتی شرکت نہیں، بلکہ دنیا کے قدیم ترین قرآنی مقابلے میں ایران کی داوری کرسی پر واپسی ہے۔
ایکنا نیوز کے نمائندے نے اس بین الاقوامی جج سے مقابلوں کے مراحل اور تجربات کے بارے میں گفتگو کی، جس کی تفصیل ذیل میں پیش ہے۔
شاہ میوہ اصفہانی نے بتایا کہ: "جج کے لیے دعوت کا عمل اردیبهشت 1403 (اپریل/مئی 2024) سے شروع ہوا۔ جاکیم ادارے کی جانب سے مجھے ایک پیغام موصول ہوا جس میں نیا سی وی، تصویر اور تفصیلات طلب کی گئیں۔ کئی ماہ کی جانچ پڑتال کے بعد ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے باضابطہ دعوت نامہ بھیجا گیا، اور اس کے بعد تمام ضروری سفارتی و انتظامی امور ملائیشیا کے سفارتخانے کے ذریعے مکمل کیے گئے۔"
انہوں نے وضاحت کی کہ: "جہاں تک میری معلومات ہیں، جاکیم ادارہ اپنے ججز کے انتخاب میں ان کی ذاتی شخصیت اور ملک دونوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ اسی لیے عموماً مصر، سعودی عرب، اردن، انڈونیشیا، مراکش وغیرہ جیسے نمایاں ممالک کی مشہور شخصیات کو دعوت دی جاتی ہے۔"
بین الاقوامی مقابلے کے اس ایرانی جج نے کہا: "ملائیشیا میں داوری کی کرسی ایک نہایت اہم مقام ہے، اور اصل بات یہ ہے کہ اس کرسی کو مستقبل میں محفوظ رکھا جائے، چاہے یہ منصب میرے پاس ہو یا کسی اور ایرانی کے پاس۔ ہمیں ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ یہ مقام ایران کے ہاتھ سے نہ جائے۔"
شاہ میوہ اصفہانی نے ایران اور ملائیشیا کے قرآنی مقابلوں میں ججز کے فرق کے بارے میں کہا: "ہمارے قاری ہر مقابلے میں اس کے مخصوص قواعد کے مطابق تلاوت کرتے ہیں۔ اگرچہ ایران اور دوسرے ممالک بشمول ملائیشیا کے قوانین میں کئی مماثلتیں ہیں، مگر بعض اختلافات بھی موجود ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "مثال کے طور پر، ملائیشیا کے مقابلوں میں قاری کو لازماً مقررہ وقت میں چار مختلف مقامات یا نغمات میں تلاوت کرنی ہوتی ہے۔ لہٰذا قاری کو وقت کا درست نظم و نسق رکھنا ہوتا ہے اور اس انداز سے مقامات ترتیب دینا ہوتے ہیں کہ چاروں مقامات مکمل ہو سکیں۔ ملائیشیا میں داوروں اور حتیٰ کہ عوام کی تلاوت کی سمجھ، مرحوم مصطفیٰ اسماعیل کے ترتیب دیے گئے ردیف بندی کے انداز پر ہے، اسی لیے بعض مقامات وہاں کی تلاوتی ثقافت میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً بیات میں شوریٰ، جواب الجواب کی جگہ پر، یا حجاز اور نہاوند جیسے مقامات میں مصری انداز کے عشاق کے ذائقے کے ساتھ، جو وہاں کے عوام کے لیے زیادہ مانوس اور یادگار ہیں۔ جبکہ ایران کے قرآنی مقابلوں میں مختلف اسالیب برابر سمجھے جاتے ہیں اور مقامات کی تعداد کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ صوتی وقفوں اور آہنگ پر زور دیا جاتا ہے۔"
4295836