اسلامی ممالک کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے طویل المدت حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے

IQNA

ملایشین دانشور ایکنا سے؛

اسلامی ممالک کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے طویل المدت حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے

17:30 - August 05, 2025
خبر کا کوڈ: 3518936
ایکنا: جب تک مسلم اقوام عملی اتحاد کے ذریعے اپنی عزت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے طویل المدت اسٹریٹیجیز اختیار نہیں کرتی ان پر حملہ ہوتا رہے گا۔

ایکنا نیوز- احمد فاروق موسی، معروف اسلامی اسکالر اور اسلامی نشاۃ ثانیہ فرنٹ (Islamic Renaissance Front) کے بانی و ڈائریکٹر، نیز ملائیشیا کی موناش یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ایران پر حالیہ امریکی و صہیونی جارحیت کے تناظر میں ایکنا سے گفتگو کی اور اس میں عالم اسلام کے لیے طویل المدت حکمت عملی اپنانے پر زور دیا۔

 مسلمانوں کی آواز کو دبانے کا سلسلہ اور اس کا حل

احمد فاروق موسی نے کہا کہ مسلمانوں کی آوازوں کو دبانے اور ان کے خلاف جارحیت کو معمول بنائے جانے کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک مسلم اقوام عملی اتحاد کے ذریعے اپنی عزت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے طویل المدت اسٹریٹیجیز اختیار نہیں کرتیں۔

 ایران پر حالیہ حملے اور اس کے نتائج

انہوں نے 13 جون (23 خرداد) کو اسرائیل کی جانب سے ایران پر ہونے والے ہمہ گیر حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت نے ایران کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور کئی سینئر فوجی کمانڈرز، ایٹمی سائنسدان اور عام شہری شہید کیے گئے۔

امریکہ نے بھی ایران کے پرامن ایٹمی مراکز کو نشانہ بنا کر اس حملے میں شرکت کی۔

12 دن کی جھڑپ کے بعد بالآخر قابض حکومت نے واشنگٹن کی تجویز پر یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

 مغربی ایشیا میں امن کے لیے ایران کا ایٹمی توازن ضروری

احمد فاروق موسی نے کہا: ایران اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی تناؤ میں شدت کا سب سے بڑا نتیجہ ایک کثیر جہتی علاقائی جنگ ہو گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کے کئی اتحادی خلیج میں موجود ہیں، جیسے حزب اللہ، شام، اور حوثی تحریک۔

خطے میں ایٹمی جنگ کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا: اگر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن مقصود ہے تو ایٹمی طاقت میں توازن ضروری ہے۔ ایران کو ایٹمی صلاحیت رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ اسرائیل کا مقابلہ کر سکے۔

مزید کہا: قرآن ہمیں فوجی طاقت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ دشمنانِ خدا و اسلام کے دلوں میں رعب پیدا ہو۔ اور سورہ انفال آیت 60 کا حوالہ دیا: "اور جو کچھ تم طاقت رکھتے ہو اس سے اور گھوڑوں کی باندھی ہوئی صفوں سے ان کے لیے طاقت تیار رکھو تاکہ اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں کو ڈرا سکو۔

 اقوام متحدہ اور مغرب کا جانبدارانہ رویہ

انہوں نے اس بات پر سخت تنقید کی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہی، جو کہ بین الاقوامی نظام میں گہرے تعصبات کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان (امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین) کو ویٹو پاور حاصل ہے، جو کسی بھی قرارداد کو روک سکتے ہیں، چاہے عالمی اتفاق موجود ہو۔

افریقہ، لاطینی امریکہ یا ایشیا کی نمائندگی نہ ہونے کے باعث ترقی پذیر ممالک کی آواز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

 مسلم ممالک کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟

احمد فاروق موسی نے کہا: اسلامی ممالک کو اپنی بین الاقوامی سفارت کاری کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے اور اجتماعی ردعمل اختیار کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے 57 ممالک ایک ممکنہ مشترکہ آواز رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان میں عملی اتحاد کا فقدان ہے۔

جب تک یہ ممالک محض ردعمل کی پالیسی پر قائم رہیں گے، مسلمانوں کی آواز کو دبانے اور ان کے خلاف جارحیت کو معمول بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ان کے مطابق حل درج ذیل نکات میں پوشیدہ ہے:

ادارہ جاتی اصلاحات

مسلمان ممالک کے درمیان معاشی تعاون

بیانیہ پر کنٹرول اور اطلاعاتی خودمختاری

سفارتی تنوع (غیر مغربی طاقتوں سے روابط)

اصولی اتحاد اور عملی یکجہتی

احمد فاروق موسی نے اختتام پر کہا مسلمان اگر اپنی عزت، خودمختاری اور اجتماعی حیثیت کا تحفظ چاہتے ہیں تو انہیں طویل المدت اور اصولی حکمت عملیوں کے ذریعے عالمی ناانصافی کے خلاف مضبوط اور باعزت موقف اختیار کرنا ہوگا۔/

 

4295127

نظرات بینندگان
captcha