ایکنا نیوز- الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، ایک ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد، جس میں بڑی تعداد میں بھارتی مسلمان ریاست اتر پردیش کے شہر بریلی کے ریلوے اسٹیشن پر دکھائی دیتے ہیں، ملک میں مسلمانوں کے خلاف تحریک اور اشتعال کی ایک نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
یہ ویڈیو، جو تیزی سے بھارتی پلیٹ فارمز پر پھیل گئی، اس پر تبصروں کا ایک سیلاب آیا جن میں دعویٰ کیا گیا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پولیس کے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کے خوف سے ریاست چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اس پروپیگنڈے نے معاملے کو سیاسی اور مذہبی رنگ دے دیا۔
تاہم، ان دعووں کے پیچھے ایک گہانی کہانی ہے جو چند ہفتے پہلے شروع ہوئی تھی، اور غلط معلومات کے پھیلاؤ نے اتر پردیش — جو بھارت کی سب سے حساس ریاستوں میں سے ایک ہے، میں مسلمانوں اور مقامی حکام کے درمیان تنازعات کو دوبارہ بھڑکا دیا۔
اس بحران کی جڑیں ایک عوامی مہم میں ہیں جو مسلمانوں نے گزشتہ ستمبر میں نعرے "میں عاشقِ حضرت محمدؐ ہوں" کے تحت شروع کی تھی۔ یہ مہم بینرز اور پوسٹروں کے ذریعے محبتِ رسولؐ کے اظہار سے شروع ہوئی، اور جلد ہی کئی بھارتی ریاستوں میں عوامی بحث اور تنازعے کا باعث بن گئی۔
یہ تحریک اتر پردیش کے شہر کانپور میں 4 ستمبر کو اس وقت شروع ہوئی جب اسی نعرے والا ایک بینر لگایا گیا، جس پر ہندو انتہا پسند گروہوں نے احتجاج کیا اور اسے "غیر معمولی مذہبی بدعت" قرار دیا۔
پولیس نے ردعمل کے طور پر متعدد شرکاء کے خلاف تحقیقات شروع کیں، الزام لگاتے ہوئے کہ انہوں نے "سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا"۔ اس اقدام نے مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑا دی، جنہوں نے اسے اپنی مذہبی شناخت پر حملہ قرار دیا۔ یہ مہم جلد ہی ایک آن لائن احتجاجی تحریک میں بدل گئی، جس میں #ILoveMuhammad اور #IStandWithMuslims جیسے ہیش ٹیگز کے ذریعے لاکھوں افراد شامل ہوئے۔
توقیر رضا خان جو ایک ممتاز عالمِ دین اور شورائے اتحاد ملت کے سربراہ ہیں ، اس مہم کے نمایاں حامی کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے عشقِ رسولؐ کے اظہار کو "ایک غیر محدود مذہبی حق" قرار دیا۔
ان کے پولیس کے اقدامات کے خلاف شدید بیانات کے بعد، ان کے ہزاروں حامیوں نے 26 ستمبر کو بریلی میں حضرت علاء الدین احمد رضا خان کے مزار اور توقیر رضا کے گھر کے باہر احتجاج کیا، اگرچہ مقامی حکام نے مارچ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
مقامی حکومت نے ان واقعات کو پہلے سے طے شدہ سازش قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا، جس میں توقیر رضا خان سمیت 70 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا، اور ان کے حامیوں کی جائیدادیں بھی مسمار کی گئیں۔
اسی دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں مسلمانوں کا ہجوم بریلی اسٹیشن پر نظر آیا، اور اسے اس طرح پیش کیا گیا جیسے مسلمان پولیس کے کریک ڈاؤن کے خوف سے شہر سے نقل مکانی کر رہے ہوں۔
تاہم، بعد ازاں تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ یہ ویڈیو ایک ماہ پرانی ہے، جو دراصل 21 اگست کو ریکارڈ کی گئی تھی یعنی بریلی میں حالیہ واقعات سے کافی پہلے۔
مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ ویڈیو میں دکھائے گئے افراد زائرین تھے جو امام احمد رضا خان بریلویؒ — جو ہندوستان کے ممتاز علمائے اسلام میں سے ایک ہیں ، کی برسی کے موقع پر منعقد ہونے والے سالانہ مذہبی اجتماع میں شرکت کے بعد شہر چھوڑ رہے تھے۔/
4309008