ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں موجود کل ۱،۲۴۴ مساجد میں سے ۸۳۵ سے زائد مساجد کو مکمل طور پر اور ۱۸۰ سے زائد مساجد کو جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے۔
اس دو سالہ جنگِ نسل کشی نے نہ عوام پر رحم کیا اور نہ ہی گھروں پر بلکہ اپنی تباہ کن مشینری کے ذریعے انہوں نے قدیم منارے اور صدیوں سے غزہ کی شناخت اور تاریخی گہرائی کی علامت رہنے والی تاریخی و باستانی مساجد کوبھی نشانہ بنایا ہے۔
ہزاروں شہری ہلاک و زخمی ہونے اور گھروں کے ملبے میں تبدیل ہونے کے علاوہ، اس نشانہ گیری کا دائرہ مساجد اور مناروں تک بھی پھیل گیا ہے، جو آج خود کو ملبے میں دیکھ رہے ہیں۔
ان میں سے کئی مساجد مملوکیہ اور عثمانی دور تک قدیم ہیں ، جو مذہبی اور تاریخی ورثۂ غزہ کو خطرے میں ڈال کر ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں ، جب کہ دیگر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان سب میں سب سے نمایاں مساجد جو ۸ اکتوبر ۲۰۲۳ سے جاری تباہ کن جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنیں، درج ذیل ہیں:
مسجدِ جامعِ العمری یہ مسجد غزہ شہر کی قدیم اور نمایاں مساجد میں سے ایک ہے، جو پرانے شہر کے وسط میں، قدیم بازار کے قریب واقع ہے۔
مسجدِ سید ہاشم کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد دراج محلے میں، غزہ شہر کے مشرق میں واقع ہے اور یہاں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے دادا ہاشم بن عبدالمنّاف کا مزار ہے؛ جس کے نام کے ساتھ شہرِ “غَزَّہ ہاشِم” جڑا ہوا ہے۔
مسجدِ جامعِ کاتب ولایت یہ مسجد پرفیریئس چرچ کے ساتھ مشترکہ دیوار رکھتی تھی اور غزہ شہر کی اہم تاریخی مساجد میں شمار ہوتی تھی۔
مسجدِ ابنِ عثمان یہ مسجد العمری کے بعد شہرِ غزہ کی دوسری بڑی تاریخی مسجد ہے اور اس کا رقبہ تقریباً ۲۰۰۰ مربع میٹر ہے۔ یہ مسجد شجاعیہ محلے میں واقع ہے اور مربّع السّوق کی سڑک پر ہے؛ مملوک دورِ فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے جس میں مخصوص معماری و سجاوٹی عناصر پائے جاتے ہیں۔
مسجد ابن عثمان قبل تخریب کے بعد
مسجدِ علی بن مروان غزہ شہر کی معروف مساجد میں سے ایک، تفاح محلے میں قدیم شہر کی مشرقی دیوار کے باہر واقع ہے۔
مسجدِ شیخ عثمان قشقر غزہ شہر کی قدیم ترین تاریخی مساجد میں سے ایک، جو سنِ ۱۲۲۳ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی اور رقبہ تقریباً ۷۰ مربع میٹر تھا۔
مسجدِ جامعِ خان یونس یہ خان یونس شہر کی جنوبِ غزہ پٹی میں سب سے بڑی مسجد ہے۔
مساجد کی تباہی کو صہیونی حکام کی جانب سے رسمی طور پر تقویت بھی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر، قابض صہیونی وزیرِ داخلہ ایتامار بن گویر نے دعویٰ کیا تھا کہ مساجد اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کے مرکزی مراکز بن چکی ہیں۔
مسجد علی بن مروان قبل و پس از تخریب
بیانِ حال کے مطابق، اسرائیل مساجد پر اس وقت حملہ نہیں کرتا جب وہ خالی ہوں؛ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیارے معمولاً نمازیوں کے اداِ نماز کے وقت مساجد کو نشانہ بناتے ہیں، جس کے نتیجے میں غزہ کی متعدد جگہوں پر سینکڑوں نمازی شہید ہوئے ہیں۔
انہوں نے مساجد کو تباہ کیا، عبادت گاہوں کو ملبے میں تبدیل کیا، اور ہر تباہ شدہ مسجد کے ساتھ درجنوں نمازیوں اور ان کے ہمسایوں کو بے گھر کر دیا اور آس پاس کے اوقاف و خدماتی مراکز کو بھی تباہ کر دیا۔
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ مساجد کی حفاظت اور انہیں نشانہ بنانے والوں کو روکنا ایک الہی فریضہ ہے۔ خدا نے ان لوگوں کو جو اُس کے مساجد میں اس کی مدد کرتے ہیں، شاندار فتح کا وعدہ فرمایا ہے:
“الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ... وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ۔”
(ترجمۂ : وہ مومن جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، سوائے اس کے کہ وہ یہ کہنے کے سوا کہ ہمارا رب اللہ ہے؛ اور اگر خدا بعض لوگوں کے شر کو بعض لوگوں سے نہ روکے تو بے شک عبادت گاہیں، دیر و خانقاہیں اور وہ مساجد جو گاہِ یادِ خدا ہوتی ہیں، سب ویران ہو جاتیں۔ اور جو کوئی خدا کی مدد کرے گا، بے شک اللہ اسے مدد دے گا؛ اللہ بہت مضبوط، غالب ہے۔)
سورۃ الحج: آیت ۴۰
4309516