
ایکنا نیوز- خبر رساں ایجنسی اناطولی کے مطابق اس شخص کی شناخت حمید جوشکون (51 سالہ) کے نام سے ہوئی ہے، جس نے 13 فروری کو قرآن کا ایک نسخہ اٹھا کر اسلام کے خلاف توہینآمیز الفاظ ادا کیے تھے۔
جون میں وِسٹ منسٹر عدالت نے اسے مذہبی بنیادوں پر عوامی نظم کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 240 پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا تھا۔
تاہم، اس کے وکلاء نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دراصل اس قانونِ توہینِ مذہب کی بحالی کی کوشش ہے جو برطانیہ میں 2008ء میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ جوشکون نے سوشل میڈیا پر اپنے جرم سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کا اقدام ترکی کی حکومت کے خلاف احتجاج تھا۔
برطانیہ کی نیشنل سیکولر سوسائٹی، جس نے اس گستاخ شخص کے وکیل کی فیس میں بھی حصہ ڈالا، نے عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ "آزادیِ اظہار" پر ایک بڑا حملہ تھا، جبکہ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی نے بھی اسی مؤقف کی تائید کی۔
جج بنتان نے جمعہ کے روز ساؤتھ وورک کراؤن کورٹ میں فیصلے کے دوران کہا کہ اگرچہ قرآن کو جلانا ایک ایسا عمل ہے جو بہت سے مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور توہینآمیز ہو سکتا ہے، مگر آزادیِ اظہار کا حق ایسے خیالات کو بھی شامل کرتا ہے جو توهینآمیز، صدمہ پہنچانے والے یا تکلیف دہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم ایک جمہوری اور آزاد معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہمیں جو قیمتی حق حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار کریں اور بغیر حکومتی مداخلت کے مختلف خیالات کو پڑھیں، سنیں اور ان پر بحث کریں۔
جج نے یہ بھی کہا کہ اس آزادی کی قیمت یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کو بھی یہی حق دینا ہوگا، چاہے ان کے خیالات ہمیں ناگواری، رنج یا صدمہ پہنچائیں۔
واضح رہے کہ برطانیہ اور ویلز میں کفرگویی (Blasphemy) سے متعلق قوانین 2008ء میں، اور اسکاٹ لینڈ میں 2021ء میں منسوخ کر دیے گئے تھے۔/
4309994