ایکنا نیوز-شفقنا- واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جنرل ڈیمپسی نے 26 ستمبر جمعے کے روز امریکی محکمہء دفاع پینٹاگون میں صحافیوں کو بتایا کہ شامی باغیوں پر مشتمل یہ فورس اس لیے درکار ہو گی کہ وہ مشرقی شام میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو پسپائی پر مجبور کر سکے تاکہ اسلامک اسٹیٹ IS یا دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں سے وہ علاقے واپس لیے جا سکیں جن پر وہ قبضہ کر چکے ہیں۔
امریکی فوج کے اس اعلیٰ ترین اہلکار نے کہا کہ ان جنگجوؤں کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی سطح پر بھی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے یہ فورس ناگزیر ہو گی تاہم یہ عمل صبر آزما ہونے کے علاوہ کافی وقت بھی لے سکتا ہے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ جنرل ڈیمپسی نے شام میں صدر اسد کے مخالف باغیوں پر مشتمل اس فورس کے لیے جتنے ممکنہ فائٹرز کا ذکر کیا ہے، ان کی تعداد ایسے شامی باغیوں کی تعداد کا تین گنا بنتی ہے، جنہیں امریکا نے عسکری تربیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
جنرل مارٹن ڈیمپسی نے صحافیوں کو بتایا کہ اب تک کا منصوبہ یہ ہے کہ امریکا اگلے سال تک پانچ ہزار شامی باغیوں کو اپنے فوجی ماہرین کے ذریعے تربیت دے گا۔ ’’لیکن امریکا کا یہ ارادہ تو کبھی نہیں تھا کہ شامی باغیوں پر مشتمل یہ فورس آخر تک بھی صرف پانچ ہزار ارکان پر ہی مشتمل ہو گی۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ واشنگٹن کے حکومتی یا فوجی نمائندوں میں سے کسی نے یہ بات کھل کر کہی ہے کہ شام میں پیش قدمی کرنے والے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگی کامیابی کے لیے تشکیل دی جانے والی شامی باغیوں کی فورس کی مناسب نفری کم از کم بھی کتنی ہونی چاہیے۔
اس پس منظر میں امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے کہا کہ امریکا نے درجنوں دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی قیادت میں جو عسکری اتحاد قائم کیا ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہی ہے کہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو شکست دینے کے لیے صرف فضائی حملے ہی کافی نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے ’زمینی عسکری عنصر‘ بھی لازمی ہو گا۔
اسلامک اسٹیٹ کے خلاف شام میں شامی باغیوں ہی پر مشتمل اس عسکری طاقت کے بارے میں جنرل مارٹن ڈیمپسی نے زور دے کر کہا، ’’ہمیں یہ کام درست طور پر کرنا ہو گا۔ بہت زیادہ تیزی لازمی نہیں۔