ایکنانیوز-ریڈیو ایران- میانمار کے مسلمان انتہاپسند بودھشٹوں کے حملوں اور حکومت کے دباؤ کے سبب ملک سے مسلسل فرار کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیناں نے 2014 میں میانمار اور بنگلادیش کے ترپن ہزار مسلمانوں کے بے گھر ہونے کی خبردیتے ہوئے کہا ہے کہ ان پناہ گزینوں میں سے بیشتر مسلمانوں کا تعلق، میانمار کے مغربی علاقے روہنگیا سے ہے کہ جہاں مسلمان زندگی گذارتے ہیں۔
میانمار کی نیوز ایجنسی "آراکان" نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار کے پناہ گزینوں نے، چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اور انسانی اسمگلروں کے توسط سے ایک بہتر زندگی کے حصول اور تشدد اور قتل و خونریزی سے بچنے کے لئے انپے ملکوں سے فرار کیا ہے اور ان میں سے، پندرہ فیصد پناہ گزینوں نے صرف گذشتہ دوماہ میں فرار کیا ہے اور وہ بے سروسامانی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ سال کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ بہت سے خبری ذرائع، مسلمانوں پر حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو، اس ملک کے مسلمانوں کے فرار کا باعث قرار دے رہے ہیں۔
متعدد رپورٹوں کے مطابق، میانمار کی حکومت نے تیرہ لاکھ مسلمانوں میں سے اکثریت سے ان کا حق شہریت سلب کرلیا ہے اور ان کی منتقلی، شادی اور روزگار کے مواقع میں سخت مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ میانمار کی حکومت روہنگیائی مسلمانوں کو میانماری شہری قرار نہیں دیتی اور ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ان دو صورتوں میں سے کسی ایک، یا تو اپنے بنگالی ہونے کا اعتراف کرنے یا پھر نامعلوم مقامات پر انتہائی ابتر حالات میں کیمپوں میں قید میں رہنے، کا انتخاب کریں۔
میانمار کی حکومت نے اسی طرح انتہا پسند بدھشٹوں کے دباؤ سے ایک ایسے بل کو منظور کرکے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے کہ جس سے اس ملک کے شہری اور مذہبی سرگرم کارکنوں کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بین المذاہب شادیوں کو روکنا، مذہب کی تبدیلی اور بچوں کی پیدائش میں تعداد کا تعین وہ اہم ترین مسائل ہیں کہ جن پر میانمار کے صدر کے تیار کردہ بل میں توجہ دی گئی ہے۔ایک ایسا بل کہ جسے بہت سے مخالفین نے امتیاز پرمبنی قرار دیا ہے۔
ایشیاء نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں خواتین کی حمایتی تنظیم کے بانی "ماخین لای" نے کہا ہے کہ ایسی حالت میں حکومت نے اس بل میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کا دعوی کیا ہےکہ خواتین کے مطالبات کےخلاف بہت سے مسائل پیش کئے گئے ہیں۔ میانمار میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں لیکن اقتدار، انتہا پسند بدھشٹوں کے ہاتھ میں ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو گذشتہ چند عشروں سے ہمیشہ پابندیوں اور آزار و اذیت کا سامنا ہے۔
میانمار کے بعض علاقوں خاص طورپر مغربی علاقوں میں اقلیتوں کے خلاف مذہبی پابندیاں، بہت زیادہ ہیں۔ جیسا کہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں تین ہزار سے زیادہ دیہاتوں کو اس ملک میں ویران کردیا گیا اور کم از کم دو لاکھ مسلمان بھی اپنی جان بچانے کے لئےمہاجرت پر مجبور ہوگئے ہیں، لیکن 2012 سے میانماری مسلمانوں کےوسیع قتل عام کے بعد اس ملک کے مغربی صوبے راخین سے مسلمانوں نے فرار کرنا شروع کیا اور یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تک پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں میانمار کی ابتر صورتحال پر امریکی کانگریس کے مشیر لارنس کورب نے ، میانمار کے مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر حقوق پامال کئے جانے کےخلاف عالمی برادری کے اقدامات کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے امریکی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ میانمار کے مسلمان انتہائی ابتر حالت میں زندگی گذار رہے ہیں اور اس ملک میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہاہے وہ غیر انسانی ہے،انہوں نے میانمار کے مسلمانوں کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کا ذکر کرتے ہوئے کہ میانمار کے حکام کا رویہ اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ وہی ہے جو داعش کا رویہ عراق کے شہریوں کے ساتھ ہے اور یہ رویہ اکیسویں صدی میں تعجب انگیز ہے۔
روہنگیائی مسلمانوں کی ابتر صورتحال کے حوالے سے حال ہی میں دل ہلادینے والی جو رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان کے مطابق ان مسلمانوں خاص طور پر بچوں کے اعضائے بدن کی چوری کی جارہی ہے جس سے میانمار کے مسلمانوں کےخلاف انتہا پسند بدھشٹوں کی انتہائی بربریت کی نشاندہی ہوتی ہے۔