ترکی تبدیلی یا سقوط کے دہانے پر؟

IQNA

ترکی تبدیلی یا سقوط کے دہانے پر؟

13:49 - July 28, 2015
خبر کا کوڈ: 3336270
بین الاقوامی گروپ:ترکی کی موجودہ حکومت ایک طرف نئے انتخابات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے تو دوسری طرف اس نے کردوں اور داعش کے خلاف جنگ کا محاز بھی کھول دیا ہے

ایکنا نیوز- شفقنا-ترکی کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا یہ تجزیہ ہے کہ بظاہر یہ دو ایجنڈے ہیں لیکن ہدف ایک ہے ۔رجب طیب کی حکومت حالیہ انتخابات میں کم نشستیں لینے کی وجہ سے داخلی اور خارجہ دونوں محازوں پر دباؤ کا شکار ہے۔پارلیمنٹ میں کم نشستوں کی وجہ سے وہ تنہا حکومت بنانے سے محروم ہے تو دوسری طرف شام کے حوالے سے دہشتگردوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے اسی شش و پنج سے نکلنے کے لئے ترکی کے عبوری وزیراعظم دآؤد اوغلو نے اپنی پارٹی کےصوبائی عہدیداروں کو ٹیلی فون کرکے کہا ہے کہ نئے پارلیمانی انتخابات کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں ۔داؤداوغلو نے ایسے عالم میں اپنی پارٹی عہدیداروں کو نئے انتخابات کی تیاری کا حکم دیا ہے کہ وہ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت تشکیل دینے کے لئے ایک بار پھر مختلف جماعتوں سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے والے ہیں۔ ترکی کے عبوری وزیراعظم دآؤد اوغلو کے پارلیمانی انتخابات دوبارہ کرانے کے اس اعلان کا مختلف پہلو ‎ؤں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ دآؤد اوغلو کی جماعت ترقی و انصاف پارٹی حالیہ انتخابات کے نتائج پر خوش نہیں ہے اور وہ اپنے آپ کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے تاکہ مطلوبہ اکثریت حاصل کرکے ترکی کے سیاسی نظام میں تبدیلی کا اپنا ایجنڈہ مکمل کرے۔دوسری طرف رجب طیب اردوغاں جنہیں ترقی و انصاف پارٹی کا روحانی قائد بھی سمجھا جاتا ہے وہ بھی انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا عندیہ دے چکے ہیں اسلئے بہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے وہ خود بھی اتحادی حکومت تشکیل دینے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہوں تاکہ دوبارہ انتخابات کے لئے ماحول تیار ہوسکے۔اسکے علاوہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دآؤد اوغلو گاجر اور چھڑی کی سیاست کو بروئے کار لا رہے ہوں تاکہ نئے انتخابات کی چھڑی دکھا کر دوسری جماعتوں کو اپنی شرائط کے ساتھ حکومت میں شامل کرنے پر تیار کیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ترکی میں ماحول دوبارہ انتخابات کے لئے تیار ہے اور کیا نئے انتخابات سے موجودہ سیاسی بحران ختم ہوجائیگا اور کیامختلف جماعتوں پر مشتمل آلآئنس کی حکومت بنانے کا مسئلہ حل بھی ہوجائیگا وہ بھی ایسے حالات میں جب ترکی کے کم سے کم انیس بڑے شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے ہیں جن میں رجب طیب اردوغاں اور انکی جماعت عدالت و انصاف پارٹی کے خلاف شدید نعرے لگائے گئے ہیں۔ان مظاہروں کی ظاہری وجہ سوروچ میں ہونے والی دہشتگردانہ کاروائی کی مذمت تھی لیکن اس سے اردوغان مخالف پارٹیوں کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ حکومت کی ان پالیسوں کو شدیدتنقید کا نشانہ بنائیں جسکی وجہ سے انقرہ کی حکومت داعش جیسےدہشتگرد گروہوں کی حمایت کررہی ہے ۔ترکی کے ایک سابق وزیر خارجہ یاشار یاکیش نے تو ترقی و انصاف پارٹی کے قائدین سے کھل کر کہا ہے کہ شام کے بارے میں ترکی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے ۔  بہرحال ایسے وقت جب ترکی کی مختلف سیاسی پارٹیوں اور انکے حامیوں کے درمیان عدم اعتماد کی سطع آخری درجے تک پہنچ چکی ہے اور دوسری طرف سوروچ کے دہشتگردانہ واقعہ سے ملک کو سیکوریٹی کے بحران کا بھی سامنا ہے کیا ان حالات میں ترکی میں نئے پارلیمانی انتخابات کا انعقاد اور اس اقدام سے امن و امان کی بحالی اور سیاسی استحکام کا قیام ممکن ہو سکے گا۔

اس وقت ترکی میں داخلہ اور خارجہ سیاست کے حوالے سے دو اہم موضوعات زیر بحث ہیں۔ایک حکومت مخالف کردوں سے امن و صلح کے مذاکرات کو جاری رکھنےکاموضوع اور دوسرا دہشتگردی کی حمایت کی وجہ سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں جو کشیدگی آگئی ہے اسکو ختم کرنے کے لئے خارجہ پالیسیوں میں تبدیلیوں کا موضوع ہے ۔تاہم اسکا امکان کم نظر آرہا ہے کہ ترقی و انصاف پارٹی ان موضوعات کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی پر تیار ہوجائے ۔ ترقی و انصاف پارٹی اس وقت ملک میں مختلف جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم کرنے کی خواہاں ہے اور مختلف سیاسی گروہوں سے گفت و شنید کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے تاہم یہ وہ جماعتیں ہیں جو حکومت کی موجودہ پالیسیوں میں تبدیلی کی خواہاں ہیں۔اور شاید یہی مسئلہ ترکی کے حالیہ سیاسی بحران کا باعث بن گیا ہے ۔داعش کے خلاف مقابلے کے نام پر شام کی جنگ میں داخل ہونے کا موضوع شاید اس بات کا باعث بنے کہ انصاف اور ترقی پارٹی اپنی تشہیراتی مہم سے ترکی کے رائے عامہ کو اس بات پر تیار کرلے کہ ملک پر ایک جماعت کی حکومت ضروری ہے اور اسکے لئے انتخابات کا دوبارہ کرایا جانا لازمی امر ہے بہرحال جو بات اس وقت ترکی کے مفادات پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے وہ علاقے کے حوالے سے اس ملک کی پالیسیاں ہیں جسکی وجہ سے ترکی کو سلامتی کے ایک ایسے بحران کا سامنا ہے جس کو عبور کرنا آسان نہیں ہے ۔داعش نے حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو موت کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ تم اور تمہارے حواریوں نے جسطرح ترکی پر ڈکٹیٹر شپ مسلط کررکھی ہیں تمہیں اپنی جانوں کی فکر کرنی چاہیے ۔داعش کی اس دھمکی پر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

48227

ٹیگس: اردوغان ، طیب ، داعش ، ترکی
نظرات بینندگان
captcha