ٹی آرٹی نیوز کے مطابق روھنگیائی زبان میں قرآن کا ترجمہ اس سے پہلے ناقص یا نامکمل انداز میں شایع کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں ۔
روھنگیا میں تعلیم کی کمی اور عدم توجہ کی وجہ سے انکی اکثریت پناہ گزین کیمپوں میں بسر کررہے ہیں اور سالوں سے میانمار کی حکومت انہیں شہریت دینے سے انکار کررہی ہے۔
روھنگیا کے بعض افراد جنکے والدین ۱۹۶۰ کو میانمار سے میڈل ایسٹ فرار کرچکے ہیں انکی کوشش ہے کہ انکی ثقافت زندہ رہے تاہم بڑی تعداد میں روھنگیائی کے باوجود انکے الفابیٹس کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔
سال ۱۹۸۰ کو روھنگیائی دانشور مولانا محمد حنیف جو بنگلہ دیش میں رہتے ہیں انکی کاوش سے «روهینگیا حنیفی» حروف تہجی کی شکل مکمل کرنے کی کوشش کی گیی۔
نور کا کہنا ہے کہ جنہوں نے پاکستان یا انڈیا میں زندگی بسر کی ہے وہ قرآن کا اردو زبان میں مطالعہ کرتے ہیں جبکہ عرب ممالک میں رہنے والے روھنگیا عربی میں پڑھتے ہیں تاہم انکی اکثریت قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے قاصر ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ روھنگیائی زبان میں قرآن کی ویڈیو اور آڈیو فارمیٹ تیار کیا جائے تاکہ سب اس سے فایدہ اٹھا سکیں اور فی الحال کتابی شکل پر توجہ نہیں۔
بہت سے مسلمان اس حوالے سے پریشان ہے کیونکہ پناہ گزین کیمپوں میں ان کو انجیل کا روھنیگیائی زبان میں ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ نے ان پناہ گزینوں کے عقیدے کی تبدیل کو منع کیا ہے تاہم مسیحی مبلغین سرعام انکو عقیدے کی تبدیلی کے لیے درس دیتے ہیں.
نور فاونڈیشن کی کوشش ہے کہ روهینگیا کو قرآن سے آشنا کرانے کے لیے اس ترجمے کا اہتمام کرے اور اس کے لیے ۸۷ ہزار ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ترجمہ کے لیے شیخ محمد ایوب کی تلاوت کا سہارا لیا گیا ہے جو ۱۹۵۰ کو مکه میں ایک روھنگیا مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور بعد میں مدینہ میں امام مسجد بنے۔/
3962731