ایک ایسی چیز جس کا بشر ہر زمانے میں سامنا کرتا رہا ہے وہ ہے بیماری . بیماری انسان کو دو طرح سے نشانہ بناتی رہی ہے جسمانی اور فکری یا روحانی۔
جسمانی بیماری واضح ہے جس کی علامات مشخص ہیں کہ اگر انسان مبتلا ہوتا ہے تو جلد تشخیص دے سکتا ہے مثال کے طور پر ان میں سے زکام ہوتے ہی انسان چھنکیں مارنا شروع کردیتا ہے اور اس کو دیکھ بندہ اپنا علاج یا راہ حل کی طرف جاتا ہے۔
خدا اپنی صفات میں سے ایک کو شفا دینے والا بیان کرتا ہے آیت 82 سوره مبارکه اسراء میں کہا جاتا ہے: «وَ نُنزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَ لَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا؛
اور جو اہل ایمان کے لیے درمان اور رحمت ہے ہم نے قرآن سے نازل کیا ہے تاہم ستمگروں کے لیے خسارہ کے علاوہ کچھ نہیں۔»(اسراء:82).
خدا نے شفا کے لیے قرآن نازل کیا جو ایک دائمی نسخہ ہے اور اسکو سب علاج پر برتر قرار دیتا ہے:
اوپر بیان شدہ آیات میں یوں کہا گیا ہے: «[قرآن] ستمگروں کو خسارہ ہی دیتا ہے». اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شفا صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور ظالم وبدکار اس سے استفادہ نہیں کرسکتا، اس کو یوں واضح کیا جاسکتا ہے:
قرآنی آیات بارش کی طرح ہیں جو باغوں اور پھولوں کے لیے باعث شادابی و حیات ہیں مگر کیچڑ کے لیے بد بو اور بدتری ہی پیدا کرتے ہیں لہذا اس سے استفادے کے لیے ایک صلاحیت ضروری ہے۔
اور یہ کہ روح و فکر کی سلامتی انسان کی جسمانی صحت سے بہت اہم تر ہے۔/