عادت بدلنے میں ابراهیم(ع) کا انوکھا انداز

IQNA

انبیاء کا انداز تربیت؛ ابراهیم(ع) / 4

عادت بدلنے میں ابراهیم(ع) کا انوکھا انداز

17:22 - June 12, 2023
خبر کا کوڈ: 3514454
انبیاء کی تربیت کا مختلف انداز رہا ہے، حضرت ابراهیم(ع) نے اپنی قوم کی اصلاح کے لیے انکی عادت کو بدلنے کی کوشش کی۔

ایکنا نیوز- انسان کے کمال میں ایک اچھا عمل یہ ہے کہ انکی عادت کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔

عادت ایک ایسے رویے کا نام ہے جو مسلسل تلقین اور اصرار سے وجود میں آتا ہے اور اس میں خاص سوچ و فکر کا اثر نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل کی وجہ سے ایجاد ہوتا ہے۔

 عادت کو انسانی پیشرفت میں بھی اہم عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان ان سرگرمیوں کو دور ڈالتا ہے اور اس میں وقت نہیں لگاتا، لہذا بری عادت کو دور کرنا یا کروانا ایک انقلابی اقدام شمار ہوتا ہے۔

حضرت ابراهیم(ع) نے بطور پیغمبر کوشش کی  کہ اپنی قوم کی بری عادات کو تبدیل کرکے اس کی بہترعادت میں تبدیل کرتے۔

 

  1. بتپرستی کی عادت کو بدلنے کی کاوش

بت پرستی قوم حضرت ابراهیم کے درمیان رایج تھی اور انکے پاس کوئی دلیل نہ تھی۔

عام طور پر انسان ایکدوسرے کی تقلید کرتے رہتے ہیں اور اس میں کسی عقیدے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور قرآن کے مطابق حضرت ابراهیم نے اس عمل کا خوب تجربہ کیا۔ ابراهیم(ع) نے جب بت پرستی کی نفی کی اور انکو اور انکے اجداد کو گمراہ قرار دیا تو انہوں نے کہا:

« قَالُواْ أَ جِئْتَنَا بِالحَقِ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِين ؛ انہوں نے کہا: کیا کوئی حق کا مطلب لیکر آئے ہو یا مذاق کررہے ہو؟!»(انبیاء، 55).

ابراهیم نے انکے جواب کو سنا تو انکی عادت بدلنے کے حوالے سے کہا: «قَالَ بَل رَّبُّكم رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ الَّذِى فَطَرَهُنَّ وَ أَنَا عَلىَ‏ ذَالِكمُ مِّنَ الشَّهِدِين؛ کہا: «(بالکل حق لایا ہو) تمھاا پروردگار وہی آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے اور میں اس پر گواہ ہوں!»(انبیاء:56).

 

  1. اچھے کاموں کی عادت

« وَ جَعَلْنَاهُمْ أَئمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَ أَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيرَاتِ وَ إِقَامَ الصَّلَوةِ وَ إِيتَاءَ الزَّكَوةِ  وَ كاَنُواْ لَنَا عَبِدِين؛ اور انکو پیشوا قرار دیا کہ وہ لوگوں کی ہدایت کریں ؛ اور نیک کاموں، نماز قایم کرنے اور زکات کی وحی کی گیی اور صرف ہماری عبادت کرتے تھے.»(انبیاء:73)

اس آیت میں حضرت ابراهیم و اسحاق و یعقوب کے لیے لفظ «عبادت‌کرنے والے» استعمال ہوا ہے جو قرآن میں کسی عمل کو مسلسل انجام دینے بارے ہے۔/

 

 

نظرات بینندگان
captcha