ایکنا نیوز- انسان کی تربیت کا ایک انداز یہ ہے کہ اس کی پیشمانی کو قبول کیا جائے، یہ توبہ کی عوامی تعریف ہے، اس سے انسان آسانی سے غلطی قبول کرتا ہے اور آئندہ غلطی سے دور رہنے کا عہد کرتا ہے، توبہ صرف غلطی قبول کے وقت نہیں بلکہ ہر زمانے کے لیے ہے حتی جب غلطی کا مرتکب بھی نہ ہوا ہو اور یہ بہت پسندیدہ عمل ہے۔
امام صادق(ع) فرماتے ہیں: بهترین دعا، استغفار ہے.
توبہ کے حؤالے سے مختلف نکات ہیں ایک یہ کہ استاد کو شاگرد کی غلطی دیکھ کر اس سے منہ نہیں موڑنا چاہیے بلکہ اس کو اسکی غلطی کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کبھی انسان کوئی غلطی کرتا ہے تاہم اسکو احساس نہیں ہوتا کہ اس نے غلطی کی ہے بلکہ اس کی نادانی کی وجہ سے یہ کام ہوتا ہے اور یہ مربی یا استاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شاگرد کو اس کی غلطی کی جانب متوجہ کرے اور دوسرا نکتہ یہ کہ اس کی معذرت کو قبول فرمائے اگر ایسا نہ کرے تو اس کی تربیت درست نہ ہوگی۔
حضرت ابراهیم جو عظیم پیغمبر تھے انہوں نے خدا کی قرب کے لیے اسی انداز سے خوب استفادہ کیا ہے۔
علامه طباطبایی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراهیم و اسماعیل کی توبہ کی وجہ اور مقصد خدا کا قرب تھا۔
تمھارے لیے ابراہیم اور انکے ہمراہ لوگوں کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے، جب اس نے اپنی (مشرك) قوم سے کہا: «ہم تم سے اور جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہے؛ ہمارے تمھارے نسبت کافر ہیں؛ اور ہم میں اور تم میں ابدی دشمنی ہے؛ جب تک تم خدا پر ایمان نہیں لاتے!- سوائے اس بات کہ جو ابراہیم نے اپنے والد [چچا آزر] سے کہا (وعدہ کیا) تمھارے لیے مغفرت طلب کرونگا، گرچہ تمھارے لیے خدا کے سامنے میں کسی چیز کا مالک نہیں (اور کوئی اختیار نہیں)!- پروردگارا! ہم نے تم پر توکل کیا اور تھماری طرف لوٹا، اور سب کا سرانجام تمھاری سمت ہے»