خوشی اور خوش بختی کی انتہا پر پہنچنے کی شرط

IQNA

قرآنی سورے/ 90

خوشی اور خوش بختی کی انتہا پر پہنچنے کی شرط

5:52 - July 02, 2023
خبر کا کوڈ: 3514553
ایکنا تھران: ہر انسان ایک انتہائی آرزو اور خواہش رکھتا ہے جہاں مکمل خوشبختی اور خوشی ہو، گرچہ یہ اکثر انسانوں کی مشترکہ آرزو ہے تاہم اس تک پہنچنے کے لیے مختلف راہوں کو آزمایا جاتا ہے۔

ایکنا نیوز- قرآن کریم میں نوے نمبر پر سورہ «بلد» موجود ہے جو تیسویں پارے کا حصہ ہے اور اس میں بیس آیات ہیں۔. سورہ «بلد» مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے اور ترتیب نزول کے حوالے سے پینتیسواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی اسلام (ص) پر اترا ہے۔

سورہ «بلد» سرزمین اور شھر کے معنوں میں ہے. اس سورے کی پہلی آیت میں خدا «بلد» کے نام سے قسم کھاتا ہے جس سے مراد شھر مکه ہے۔

اس سورے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ  انسان کو سمجھایا جائے کہ دنیا میں انسان آغاز سے موت تک ایسے سکون و آرام کی تلاش حاصل نہیں کرسکتا جو سختی کے بغیر ہو اور مکمل خوشبختی یا خوشی صرف آخرت کی زندگی میں ممکن ہے۔

شھر مکہ کی قسم کھانے کا مطلب اس شہر کی اہمیت اور مقام کو اجاگر کرتا ہے اور پھر انسان کی خلقت اور زندگی کی سختیوں پر اشارہ کیا گیا ہے۔

سخت ترین لیکن اہم اور قابل قدر ترین کام غلاموں کو آزاد کرانا، ضرورت مندوں کو کھانا دینا اور مدد کرنا کہا گیا ہے اور خداوند بزرگ نے نیک لوگوں کو «اصحاب میمنه» (اصحاب یمین،اہل جنت) اور بدکاروں کو «اصحاب مشئمه» (اصحاب شمال، اہل دوزخ) قرار دیا ہے.

سوره ‌عبارت «لااُقْسِم‌ُ» سے آغاز ہوا ہے اور دوسری آیت میں رسول اکرم (ص) ‌کی مکے میں موجودگی پر بات کی گیی ہے. اکثر مفسرین کے مطابق اس سے مراد مکہ کی عظمت اور رسول اسلام (ص) کی اس شہر میں موجودگی کی اہمیت ہے.

بعض دیگر کے مطابق «لا اُقْسِم‌ُ» سے مراد ظاہری معنی ہے یعنی «کیسے مکہ کی قسم کھائی جاسکتی ہے جب کہ اے رسول گرامی! وہاں تیرے احترام کا خیال نہیں رکھا جاتا».

یہ آیت اور آیت «فَلا اُقْسِم‌ُ بِمَواقِع‌ِ النُّجوم‌ِ: نہیں [ایسا نہیں جو یہ سوچتے ہیں قسم ہے اہم ترین [معین فاصلوں والے] ستاروں کی» (واقعه/75) میں موازنہ ہوا ہے ہے.

عصر جاهلیت میں ستاروں کی قسم کھائی جاتی تھی اور خدا نے اس سے منع کیا.  سوره «بلد» میں بھی اشارہ ہوا ہے کہ مشرکین مکہ کا احترام کرتے ہیں مگر رسول گرامی کے احترام کا لحاظ نہیں رکھتے۔

قسم ‌ہے «والِد وَ ما وَلَدَ: والد اور [اسی طرح‌]  جس کو اس نے وجود میں لایا ہے» تیسری آیت میں اس نظریه کو مضبوط کرتی ہے۔ یعنی مکہ کی قسم کو منع کیا گیا ہے اور اس کی جگہ «والد» و «ولد»، کی قسم پر اشارہ ہوا ہے. بعض مفسرین کے مطابق «‌والد» یعنی ابراهیم‌ (ع) اور ولد سے مراد اسماعیل‌ (ع) یا رسول اسلام‌ (ص) مراد ہے۔

اس آیت اور قسم کا تعلق بعد کی آیت «لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسان‌َ فی‌کَبَد: حقیت میں ہم نے انسان کو سختیوں میں خلق کیا ہے» (بلد/ 4) سے یہ ہے کہ اس دور میں مکہ اور کعبہ تک پہنچنے میں بہت سختیاں حائل تھیں، زندگی میں بھی خدا تک پہنچنے اور خدا کی جانب چلنے میں سختیاں اور مشکلات ہیں اور اس مکمل خوشبختی اور خوشی کی انتہا تک پہنچنے کے لیے ان سختیوں سے گزرنا ہوگا۔

ٹیگس: خوشی ، خؤش ، قرآن ، انسان ، والد
نظرات بینندگان
captcha