ایکنا نیوز- سیرت انبیاء (ع) اور بالخصوص حضرت ابراهیم(ع)، کے انداز تربیت غیراخلاقی انداز کے خلاف اور برعکس عمل کرنا ہے۔
یعنی جب کوئی جان لے کہ اسکے اندر یا کسی اور میں ایسا برا اخلاق یا عادت موجود ہے جو مناسب نہیں تو ایسے عمل کی طرف جائے جو اسکے برعکس ہو۔
مثال کے طور پر اگر انسان خود میں غرور دیکھے تو جان بوجھ کر تواضع کرے یہانتک کہ یہ عادت یا صفت ختم ہوجائے۔
مربی کو شاگرد کے اندر اگر کوئی بری عادت کا پتہ ہے تو اس کے خلاف عمل کرنا چاہیے تاکہ اس عمل سے بری عادت کا خاتمہ ہو۔
قرآن کریم میں اس انداز بارے اشارہ ہوا ہے: « وَ لا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لاَ السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذي بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَداوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَميمٌ ؛ هرگز نيكى اور بدى يكساں نہیں؛ بدى کو نیکی سے دفع کرو، ناگاه (تم دیکھوگے) تم میں اور جس میں دشمنی ہے، وہ تمھارا بہترین دوست ہوگا!» (فصلت ؛ 34) اس آیت کے مطابق انسان کو چاہیے کہ وہ بدی کا جواب اچھائی سے دے۔
قرآن میں دو نمونے بیان ہوئے ہیں جہاں حضرت ابراهیم (ع) از نے کفار و مشرکین کے مقابل اس طریقے سے عمل کیا ہے۔
«کیا نہیں دیکھا (اور اس سے آگاہ نہیں) وہ جو [نمرود] ابراهيم سے پروردگار بارے بحث کرتا تھا؟ کیونکہ خدا نے اسے حکومت دے دی تھی؛ (اور وہ کم ظرفی سے مغرور ہوگیا تھا؛) جب ابراہیم نے کہا: میرا خدا وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے. اس نے کہا: میں بھی زندگی و موت دیتا ہوں! (اور جیل سے دو قیدیوں کو بلایا ایک کو مار دیا اور دوسرے کو آزاد کیا، ابراهيم نے کہا: میرا خدا مشرق سے سورج کو نکالتا ہے؛ (اگر تم سچ کہتے ہو کہ خدا ہو،) سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھاو! (اس مقام پر) وہ کافر حیران رہ گیا. اور خدا ستمکار کو ہدایت نہیں کرتا.»(بقره:258)
اس آیت کے مطابق نمرود دعوی کرتا تھا کہ موت اور حیات انکے اختیار میں ہے. لیکن حضرت ابراهیم (ع) نے ہوشیاری سے اسکو لاجواب کردیا.
ابراهیم(ع) اس طرح بات کررہا تھا کہ گویا وہ حاضر ہے کہ نمرود کی خدائی کو قبول کرلے، تاہم اس نے منطقی گفتگو سے اس کو لاجواب کردیا۔
« قالَ أَ راغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتي يا إِبْراهيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْني مَلِيًّا قالَ سَلامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كانَ بي حَفِيًّا ؛ آزر نے کہا: «اے ابراهيم! کیا تم میرے معبود سے روگردان ہو؟! اگر (اس کام) سے ہاتھ نہ اٹھاوگے، تو میں تمھیں سنگسار کردونگا! اور لمبے عرصے کے لیے مجھ سے دور ہوجاو!» (مریم:46-47)
ناصر مکارم شیرازی تفسیر نمونه میں اس دو آیت بارے فرماتے ہیں: حقیقت میں ابراهيم آزر کی دھمکی کے مقابل ان سے استغفار اور بخشش کی دعا کی بات کرتا ہے۔/