ایکنا نیوز- ایک اہم اخلاقی صفت جو سالم اور شاداب معاشرے کی تشکیل میں موثر ہے وہ امانتداری ہے۔ امانتداری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسا رویہ رکھے کہ دوسروں کا حق ضائع نہ کرے اور دوسروں کی امانت کا خیال رکھے، امین یعنی ایک قابل اعتماد شخص جس کے سپرد امانت دی جاسکے۔
امانتداری ایسی صفت ہے جس کی قرآن تعریف اور اسکو مومن کی علامت بتاتا ہے(مومنون:8 – معارج:23) اور اسکے برعکس ( خیانت) کو رد کرتا ہے.ارشاد ربانی ہے: «يا ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاتَخُونُوا اللَّهَ وَ الرَّسُولَ وَ تَخُونُوا اماناتِكُمْ وَ انْتُمْ تَعْلَمُونَ ؛ اے ایمان لانے والو! خدا اور اسکے رسول سے خیانت نہ کرو اور (نيز) امانت میں خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے ہو»(انفال: 27).
امانتداری اعلی انسانی خصوصیات میں شمار ہوتی ہے، چھ انبیا کی زندگی کی داستان جو بیان ہوا ہے سب اس صفت سے مزین تھے: حضرت نوح(شعراء:107) – حضرت هود(شعراء:125) – حضرت صالح (شعراء : 143) –حضرت لوط(شعراء: 162) – حضرت شعیب(شعراء:178) – حضرت موسی(دخان : 18) خود یہ انبیا لوگوں سے کہتے تھے: : «انِّى لَكُمْ رَسُولٌ امِينٌ ؛ ہم امین بھیجے گیے ہیں»
امام سجاد (ع) امانت داری کے حوالے سے فرماتے ہیں: تم پر لازم ہے امانتداری، قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلى الله عليه و آله کو رسول قرار دیا، اگر میرے والد حسين عليه السلام کو جس تلوار سے قتل کیا گیا اس کو مجھے امانت دی جائے (تو امانت قبول کرونگا) میں اس میں خیانت نہ کرونگا۔
امانتداری کی تین اقسام ہیں:
2 . امانت مردم: لوگوں کی امانت میں خیانت نہ کی جائے.
3.اپنی امانت: انسان کی اپنی نسبت امانت کہ جو چیزیں اسکی کامیابی و سعادت میں موثر ہیں اس کا انتخاب کریں اور گناہ و شھوت کا اسیر نہ بنے۔
جب معاشرے میں امانت میں خیانت نہ ہو تو معاشرے میں امن و سکون راج کرتا ہے کیونکہ اگر ہر طرف خیانت کا خدشہ ہو تو لوگ اس کی فکر سے سکون کھو دیتے ہیں، لوگوں کی جان یا مال کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ایسی فضا دردناک ہو جاتی ہے جس سے نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں۔/