ایکنا نیوز- ا گرچه اسلام میں ناجایز طریقوں جیسے رشوت ستانی، جوا، کم فروشی اور سود وغیرہ سے سرمایے کو حرام قرار دیا گیا ہے اور حکومت اسلامی کی ذمہ داری قرار دی گیی ہے کہ وہ ان کو انکے اصل مالکوں تک پہنچائے۔
تمام انسانی معاشروں میں کم در آمد طبقوں کے لیے چارہ جوئی کی فکر رہی ہے کیونکہ اگر انکے مسائل کو حل نہ کیا جائے تو معاشرے میں سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں بھوکوں کو سیر نہ کیا گیا تو جرایم میں اضافہ قدرتی ہے۔
اسلام جو ایک جامع مکتب ہے اس میں بھی نادار طبقوں کے لیے مختلف راستے رکھے گیے ہیں جنمیں سے ایک خمس ہے۔
فقرا تک رسائی بہت اہم ہے لہذا حضرت علىعلیه السلام رکوع کے عالم میں ایک فقیر کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتا اور حالت رکوع میں اپنا انگھوٹی انکو دیتا ہے:
«انّما ولیّكم اللّه و رسوله و الّذین آمنوا الّذین یقیمون الصلوة و یؤتون الزّكاة و هم راكعون»( مائده، ۵۵)
البتّه خمس، اور زکات میں معمولی فرق ہے جس کو بیان کیا جائے گا۔
خمس، سرمایے کی تقیسم کے لیے سسٹم ہے جو انسان اپنے ارادے اور اختیار سے خدا کی رضا کے لیے دیتا ہے اور اپنی زندگی کے اخراجات سے بیس فیصد کو اپنے سالانہ اخراجات میں اضافے سے نکالتا ہے اور اس کو کسی متقی عالم تک پہنچاتے ہیں۔
یہ توازن اور تقسیم سرمایہ خمس اور زکات سے کیا جاتا ہے لیکن اس واجب سے ہٹ کر بھی راستے موجود ہیں جنمیں وقف، صدقہ ، تحفہ، کفارہ، نذر اور قرض وغیرہ شامل ہیں۔
سرمایے کی منصفانہ تقسیم بعض دیگر مکاتیب جسیے کیمونزم وغیرہ میں مالکیت کے انکار سے اور سب کے لیے دولت کے نعرے سے زبردستی کا راستہ رکھا گیا ہے جو انتخاب اور آزادی کی منافی سوچ ہے۔/