ایکنا نیوز-ایک چیز ج سے عام طور پر ہمارا واسطہ پڑتا ہے اور کافی لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی،غفلت و فراموشی ہے، غفلت یاد خدا سے اور اسکی نعمتوں سے، لہذا تذکر اور یاد آوری بہت اہم ہے انسان کی تربیت کے لیے اور یہانتک کہ اسکو عبادت کا ہدف بتایا گیا ہے۔
خداوند مهربان نے انسان کا کافی نعمتوں سے نوازا ہے تاہم غفلت اور فراموشی ایک بڑی آفت ہے جس سے انسان دوچار ہوتا ہے۔ نعمتوں کی یاد دہانی ایک بہترین تربیت ہے جس سے انبیاء استفادہ کرتے، یعنی اس سے قبل نعمتیں دی گیی ہیں اور اس کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
خدا کی نعمتوں کی یاد دھانی اس قوم کو جو رسالت کی منکر ہے باعث بنتی ہے کہ کہ وہ عشق خدا اور عظمت خدا سے آشنا ہوجائے۔
مربی ایک جملے سے یا ایک کام سے کبھی ایک بڑی بات یا مقصد سمجھا دیتا ہے۔
حضرت موسی )ع) نے کافی موقعوں پر نعمتوں کی یاد دہانی کی روش سے استفادہ کیا ہے تاکہ قوم میں صلاحیتوں کو اجاگر کرسکے۔
حضرت نے رسالت کے آغاز میں جب وہ فرعون کی طرف گیے، اور فرعون نے حضرت موسی(ع) سے کہا: «قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَى ؛(فرعون) نے کہا: «تمھارا رب کون ہے، اے موسی؟»(طه: 49)
حضرت موسی نے سوال کے جواب میں خدا کی نعمتوں کا ذکر کیا اور کہا: «پروردگار وہ ہے جو ہر موجود کو وجود بخشتا ہے اور پھر اسکو ہدایت کرتا ہے، وہی خدا جس نے زمین کو رہنے کی جگہ بنادی اور راستے بنائے اور آسمان سے پانی برسایا!» جس سے، مختلف نبادات (مٹی سے) نکلیں ہیں»(50 و 53 طه).
فرعون کی نابودی اور بنی اسرائیل کی نجات کے بعد اور انکو آزادی و اسقلال کی نعمت کے بعد اور امن و امان ملنے پر جو عظیم ترین نعمتوں میں شمار ہوتے ہیں، وہ خدا کی دی گئی نعمتوں کی یاد دہانی کراتے ہیں۔
«اے بنی اسرائیل! ہم نے تمھیں مشکلوں سے نجات دلا دی؛ اور کوہ طور کے دائیں سمت، تم سے وعدہ کیا، اور
«منّ : قدرتی شھد » اور «سلوی : خاص پرندے کا گوشت » تم پر نازل کیا»(طه: 80)