ایکنا نیوز- «وَ اعلَموا أنّما غَنِمتُم مِن شَىءٍ فَاِنّ لِلّهِ خُمُسَه و لِلرَّسولِ ولِذِى القُربى وَ الیَتامى والمَساكینِ وابنِ السَّبیلِ اِن كُنتُم آمَنتُم بِاللّه...؛ اگر خدا پر ایمان رکھتے ہو، جان لو جو کچھ مال غنیمت پاتے ہو اس میں پانچواں حصہ خدا، اسکے رسول، یتیموں اور مستضعفین و محرومین کے لیے ہیں»( انفال، ۴۱).
تاریخ نزول آیت
بعض مفسرین کے مطابق نزول آیت کا وقت جنگ بنى قینقاع (۱۵ شوال سال دوم هجرى) ہے اور بعض دیگر کے مطابق جنگ اُحد (۷ شوّال سال سوم هجرى) اور بعض دیگر کے مطابق جنگ بدر (رمضان سال دوم هجرى) نزول آیت کا وقت ہے کہ جب خدا مجاهدان اسلام سے تقاضا کرتا ہے کہ مال غنمیت میں سے خمس ادا کریں۔
آیت خمس پر دقت
آیت خمس پر گہری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
۱- احکام میں کم پر اس قدر تاکید آئی ہے. كلمات «واعلموا، انّما، من شى، فانّ، للّه خُمُسه (بجائے «خمسه للّه») و ان كنتم آمنتم» تاکید کی نشانی ہے.
۲- عوام کو اس پر ابھارنے کے لیے تاکید کرتے ہیں: اگر ایمان رکھتے ہو، خمس ادا کرو. لہذا خمس کی ادائیگی ایمان کی نشانی ہے۔
۳- جمله «فانّ للّه خُمُسه» (جو جمله اسمیّه ہے) اس بات پر دلیل ہے کہ یہ حکم دائمی حکم ہے عارضی نہیں، اور جو چیز ایمان کی علامت ہے وہ وقتی نہیں ہوسکتی.
۴- كلمه «واعلموا» آیت کے شروع میں اس بات کی دلیل ہے کہ خمس کو سنجیدگی سے لیں، اور عجیب بات ہے کہ جہاد میں شرکت، رسول گرامی کی ہمراہی، نماز و روزہ کی ادائیگی، درست عقیدہ، مھاجر و انصار میں سے ہونا، جنگ میں زخمی ہونا کفر پر غلبہ کافی نہیں کیونکہ ان تمام کمالات کے باوجود کہا جارہا ہے کہ اے مجاہدین راہ حق؛ اگر ایمان رکھتے ہو تو خمس ادا کرو، یعنی اگر صرف نماز و روزہ تک محدود ہو لیکن اگر خمس پر عمل نہیں کرتے تو ایمان واقعی نہیں۔
ایک ہم نکتہ
رسول خداصلى الله علیه وآله وسلم جنگ بدر کی رات نہیں سوئے اور مکرر دعا کرتے : اے رب، یہ مسلمانوں کا گروہ قلیل کی مثال نہیں، اگر یہ شکست کھاتے ہیں تو روئے زمین پر ایمان والے نہ ہونگے، مگر قرآن انہیں سے یوں کہتا ہے، اگر ایمان رکھتے ہو تو خمس ادا کرو، یعنی ممکن ہے کہ مسلمانوں کی کم تعداد ہی موجود ہو اور رسول اکرم کی دعاوں میں شامل بھی ہو مگر الھی حکم پر خمس ادا نہیں کرتا تو ایمان دار نہیں ہوسکتے۔/
کتاب «خمس»، بقلم محسن قرائتی سے اقتباس