ایکنا نیوز- ایک نوٹ میں بهتان و الزام یا تہمت کے دنیوی و اخروی آثار کی وضاحت کی گیی ہے اور آیت
«وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا»(الاحزاب/58)(ترجمه : اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ یقیناً ایک بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیتے ہیں۔ یہ فعل انسان کی اندرونی برائیوں کا نتیجہ ہے۔ اس ناپسندیدہ عمل کی جڑیں بعض اخلاقی رذائل میں پیوست ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
1. دشمنی: بعض اوقات انسان اپنی دشمنی اور کینے کی آگ کو بجھانے کے لیے دوسروں پر جھوٹا الزام لگاتا ہے اور ان کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کہتا ہے۔
2. حسد: کبھی انسان دوسروں کی عزت، مقام یا خوبیوں سے حسد کرتا ہے اور ان کی شخصیت کو نقصان پہنچانے کے لیے انہیں بہتان کا نشانہ بناتا ہے۔
3. سزا کا خوف: کبھی انسان اپنی غلطیوں کی سزا سے بچنے کے لیے یا خود پر لگنے والے الزامات سے بچنے کے لیے کسی اور پر جھوٹا الزام لگا دیتا ہے۔
ان اخلاقی برائیوں کا نتیجہ بہتان کی شکل میں سامنے آتا ہے، جو غیبت سے زیادہ تلخ ہوتا ہے، کیونکہ غیبت میں وہ نقص بیان کیا جاتا ہے جو حقیقتاً کسی میں موجود ہو، لیکن بہتان میں وہ بات کسی سے منسوب کی جاتی ہے جو حقیقت میں اس میں نہیں ہوتی۔
تہمت یا بہتان کے بدترین اثرات دنیا اور معاشرے دونوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ جو شخص کسی پر بہتان لگاتا ہے، وہ اللہ کے مکر سے محفوظ نہیں رہتا اور بالآخر رسوا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کی معاشرتی پہچان جلد ہو جاتی ہے اور اس کی عزت و وقار میں کمی آتی ہے۔ بہتان معاشرت میں دشمنی کا بیج بوتا ہے، دوستیوں کو دشمنیوں میں بدل دیتا ہے اور اعتماد کو، جو چھوٹے بڑے سماجی یونٹوں کا محور ہے، ختم کر دیتا ہے، جس سے یہ یونٹ بکھر جاتے ہیں۔ یہ ناپسندیدہ صفت تمام تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے، شادیوں کو طلاق میں بدل سکتی ہے، والدین اور اولاد کے تعلقات کو خراب کر سکتی ہے اور سنگین صورتوں میں قتل جیسے جرائم کا سبب بن سکتی ہے۔
آخرت میں بہتان کے اثرات کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو شخص کسی مومن مرد یا مومنہ عورت پر بہتان لگائے یا اس کے بارے میں ایسی بات کہے جو اس میں نہیں ہے، اللہ اسے قیامت کے دن آگ کے ڈھیر پر کھڑا کرے گا، جب تک کہ وہ اس بات سے نکل نہ جائے جو اس نے اپنے مؤمن بھائی یا بہن کے بارے میں کہی تھی۔"