مذاق یا تمسخر اڑانا

IQNA

انفرادی اخلاق/ آفات زبان 12

مذاق یا تمسخر اڑانا

5:02 - October 22, 2024
خبر کا کوڈ: 3517318
ایکنا: کسی کا مذاق اڑانے کے لیے اس کا نقل اتارنا تاکہ لوگوں کو ہنسایا جاسکے ایک برے فعل میں شمار ہوتا ہے۔

ایک ناپسندیدہ رویہ جسے کچھ لوگ دوسروں کی بے عزتی کے لیے استعمال کرتے ہیں، "استہزا" یا "تمسخر" ہے۔ استہزا اور تمسخر زبان کی وہ نہایت ہی بری اور ناپسندیدہ بیماریوں میں سے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں دل آزاری، دشمنی اور انتقام جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں اور یہ وحدت اور یکجہتی کی روح کو ختم کر دیتے ہیں۔ علمائے اخلاق کے مطابق، استہزا اور تمسخر کا مقصد دوسروں کے گفتار، کردار یا کسی صفت یا عیب کی نقل اتارنا اور لوگوں کو ہنسانا ہے۔ لہٰذا، استہزا دو اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے: ۱) دوسروں کی نقل اتارنا ۲) لوگوں کو ہنسانا۔ دوسروں کی عزت اور حرمت کو پامال کرنا اور انہیں کسی بھی شکل میں حقیر سمجھنا عقل و شرع دونوں میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
 
قرآن مجید اور احادیث میں اس رویے کی صریح مذمت کی گئی ہے اور اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ»(الحجرات/11) ۔ اسی طرح قرآن میں مذمت استہزا کے بارے میں کہا گیا ہے: « وَ وُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ..»(الکهف/49)


اگر استہزا کسی کی غیر موجودگی میں اور اس کے چھپے ہوئے عیوب کے بارے میں کیا جائے تو یہ نہ صرف استہزا کے حکم میں آتا ہے بلکہ غیبت کے حکم میں بھی شامل ہوتا ہے، جو زبان کے کئی بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ اس کے برے نتائج اور تباہ کن اثرات پر غور کیا جائے۔ استہزا دنیا میں دشمنی کا سبب بنتا ہے اور آخرت میں عذاب و مشکلات کا باعث ہوتا ہے۔ یہ استہزا کرنے والے کو ذلیل کرتا ہے اور اسے اپنی حیثیت سے نیچے گرا دیتا ہے، اور بعض اوقات انسان اسی چیز کا شکار ہو جاتا ہے جس کا وہ مذاق اڑاتا ہے۔


 
تاریخ میں ایک واقعہ ہے کہ حکم، مروان کا والد، رسول اللہ (ص) کے پیچھے چلتا اور آپ (ص) کے چلنے کی نقل اتار کر تمسخر کرتا۔ ایک دن رسول اکرم (ص) نے اس کے اس ناشائستہ رویے کو دیکھا اور فرمایا: "میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تم اسی حالت میں رہو"۔ اس دعا کے بعد حکم پارکنسن کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور عمر بھر اس بیماری سے نجات نہ پا سکا۔

ٹیگس: اخلاق ، زبان ، مذاق ، قرآن
نظرات بینندگان
captcha