ایکنا نیوز- قرآن کریم شہادت کو ایک بلند مقام سمجھتا ہے اور شہداء کے لیے بے شمار فضائل کا ذکر کرتا ہے۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ شہداء اللہ کے فضل سے مستفید ہوتے ہیں اور اس پر خوش و خرم رہتے ہیں:
«فَرِحينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ يَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ» (آلعمران/170).
اس آیت کے مطابق، شہداء حقیقی طور پر زندہ ہیں، کیونکہ وہ دنیا میں اثر رکھتے ہیں اور اپنے مؤمن بھائیوں کی مدد کے لیے آ سکتے ہیں۔ شہداء اپنے مجاہد بھائیوں کو خوشخبری دیتے ہیں کہ انہیں کسی خوف یا غم کا سامنا نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ان کے لیے آخرت میں مرتبے اور انعامات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی شہادت کی عظمت اور اس کے بہترین انجام کی وضاحت کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت کے مقام کی بلندی کے بارے میں فرمایا:
«فوق کلّ بِرّ بِرٌّ حتى یقتل الرجل فى سبیل الله، فاذا قُتل فى سبیل الله فلیس فوقه برّ»
اسی طرح، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
" تین قسم کے لوگ قیامت کے دن شفاعت کریں گے اور اللہ ان کی شفاعت قبول کرے گا: انبیاء، پھر علماء، اور پھر شہداء۔"
حضرت علی علیہ السلام، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صادق صحابی تھے، شہادت کے بارے میں فرماتے ہیں:
" قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابن ابی طالب کی جان ہے، مجھے بستر پر مرنے سے زیادہ ہزار تلواروں کے وار برداشت کرنا آسان ہے۔"
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں جنت کا وعدہ دیا گیا ہے، اور اللہ ان کی دنیاوی کوششوں اور اعمال کو ضائع نہیں کرتا۔ ان کے خون کا اثر اسی دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَ الَّذينَ قُتِلُوا في سَبيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ. سَيَهْديهِمْ وَ يُصْلِحُ بالَهُمْ. وَ يُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَها لَهُمْ» (محمد/4-6).