مشرق وسطی بالخصوص شام کی صورت حال پر رہبر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا اہم خطاب

IQNA

مشرق وسطی بالخصوص شام کی صورت حال پر رہبر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا اہم خطاب

14:01 - December 11, 2024
خبر کا کوڈ: 3517619
ایکنا: شام کا واقعہ امریکی اور صہیونی مشترکہ سازش کا نتیجہ ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

ایکنا نیوز کے مطابق رہبر معظم انقلاب سے تھران کے حسنیہ امام خمنی میں عوام کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے ملاقات کی ، اس ملاقات میں رہبر معظم نے شام کے حوالے سے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا، اس کے پیچھے اصل قوت امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ رومز میں تیار کی گئی منصوبہ بندی تھی۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔ شام کے ایک ہمسایہ ملک نے بھی اس میں کردار ادا کیا، لیکن اصل سازش کرنے والا اور منصوبہ ساز امریکہ اور صیہونی حکومت ہے۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت ہیں اور یہ ثبوت کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔

انکا کہا تھا: مقاومت یہ ہے، جتنا زیادہ دباؤ ڈالو گے، یہ اتنی ہی مضبوط ہوگی؛ جتنا زیادہ ظلم کرو گے، یہ اتنی ہی زیادہ پرعزم ہوگی۔ جتنا زیادہ ان سے لڑو گے، یہ اتنی ہی زیادہ پھیلے گی۔ اور میں تم سے کہتا ہوں کہ اللہ کی قدرت سے، مقاومت کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ پورے خطے میں پھیل جائے گا۔"

رھبر معظم نے فرمایا "جاہل تجزیہ کار جو مقاومت کے مفہوم سے ناواقف ہے، یہ سمجھتا ہے کہ اگر مقاومت کمزور ہوگی تو اسلامی ایران بھی کمزور ہو جائے گا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اللہ کی قدرت سے، اللہ کی اجازت سے، ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور مزید مضبوط ہوگا۔"

ہمارے سیکورٹی اداروں نے صدر بشار کو اس معاملے کے بارے میں ستمبر سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ موجودہ گروہ زیادہ دیر تک اقتدار میں نہیں رہے گا۔ شام کے نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے۔

رھبر معظم نے فرمایا : جب اُس ملک کی فوج نے مقاومت نہیں کی، تو داخل ہونا بے معنی ہے اور عوامی رائے اسے قبول نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فوج پیچھے ہٹ گئی، لیکن وہ نہیں ہٹی، وہ فرار ہوگئی۔ ہم نے فضائی کارروائی کرنے اور داخل ہونے کا ارادہ بھی کیا تھا، لیکن امریکی اور اسرائیلی طیارے F-15s کے ساتھ روک رہے تھے۔ لیکن پھر بھی، ہمارے ایک بہادر پائلٹ نے جاکر لینڈنگ کی۔

جن حملہ آوروں کا میں نے ذکر کیا، ہر ایک کا اپنا مقصد ہے۔ ان کے اہداف مختلف ہیں: کچھ شمالی یا جنوبی شام میں علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ کا مقصد خطے میں اپنے قدموں کو مضبوط کرنا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ داعش کا مقصد عراق، شام، اور پورے خطے کو عدم استحکام میں مبتلا کرنا تھا، اور آخرکار اسلامی جمہوریہ ایران کو نشانہ بنانا تھا۔ ہم وہاں دو وجوہات سے گئے؛ ایک تو مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے کیونکہ داعش نے ان کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، اور دوسری وجہ سکیورٹی تھی، تاکہ عدم تحفظ پورے خطے میں نہ پھیل جائے۔

ہماری فوجی موجودگی کا مقصد ان ممالک کی فوجوں کی جگہ لینا نہیں تھا، بلکہ مشاورتی کام تھا، جیسے حکمت عملی مرتب کرنا، اور نوجوانوں کو متحرک کرنا۔ ہمارے شہید جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے عراق اور شام میں داعش کا مقابلہ کیا، اس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی اور فتح حاصل کی۔

جب لوگ دشمن کے وحشیانہ جرائم کو دیکھتے ہیں، تو جو لوگ شک میں تھے کہ انہیں مقاومت کرنی چاہیے یا نہیں، وہ اپنے شک و شبہات سے باہر آ جاتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا واحد طریقہ ظالم اور متکبر کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہے۔ انسان کو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور مقاومت کرنی پڑتی ہے۔ یہی مقاومت کا مطلب ہے۔

رھبر معظم نے فرمایا: حزب اللہ کو لبنان میں دیکھیں اور دیکھیں، کیا حزب اللہ پر آنے والی قیامت کوئی معمولی بات تھی؟ سید حسن نصراللہ جیسے شخص کو کھونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ حزب اللہ کے حملے، اس کی طاقت اور حزب اللہ کا مضبوط ردعمل اس کے بعد پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ دشمن نے یہ سمجھا اور اسے قبول کیا۔

انہوں نے سوچا تھا کہ ایک دھچکا دینے کے بعد وہ لبنانی علاقے پر حملہ کر کے حزب اللہ کو کچھ مقامات تک پیچھے دھکیل دیں گے، جیسے کہ لیتانی دریا تک، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ حزب اللہ نے مکمل طاقت کے ساتھ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور انہیں مذاکرات کی میز پر لے آ کر جنگ بندی کی درخواست کروا لی۔ یہ ہے مقاومت۔

شام میں ہماری موجودگی کا سوال اٹھتا ہے۔ ہم وہاں موجود تھے، اور شہداءِ حرم اس کا ثبوت ہیں۔ ہم نے شامی حکومت کی مدد کی، لیکن اس سے پہلے شامی حکومت نے ہمارے حق میں فیصلہ کن قدم اٹھایا تھا۔

مقدس دفاع کے دوران، جب سب عراق کے ساتھ تھے، شامی حکومت نے صدام کے لیے تیل کی پائپ لائن کو کاٹ دیا، جس سے وہ پیسہ کماتا تھا۔ یہ قدم عالمی سطح پر ہلچل کا باعث بنا۔ شامی حکومت نے یہ قربانی دی، اور اسلامی جمہوریہ نے ان کی مدد کا بدلہ دیا۔

آپ نے فرمایا:  شام کا واقعہ ہم سب کے لیے، بشمول ہمارے رہنماؤں کے، سبق اور انتباہات فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس سے سیکھنا چاہیے۔

اس واقعے کا ایک سبق یہ ہے کہ دشمن کے بارے میں غفلت نہ برتی جائے۔ ہاں، اس واقعے میں دشمن نے تیزی سے عمل کیا، لیکن پہلے سے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ دشمن کارروائی کرے گا اور جلدی کرے گا۔

انکا کہنا تھا کہ ہم نے بھی ان کی مدد کی تھی۔ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں مہینوں سے شامی حکام کو مسلسل انتباہی رپورٹس بھیج رہی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ رپورٹس اعلیٰ حکام تک پہنچیں یا راستے میں گم ہو گئیں، لیکن ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں ستمبر، اکتوبر، اور نومبر سے مسلسل ان کو خبردار کر رہی تھیں۔

آپ نے فرمایا:  ہمیں دشمن کے بارے میں غافل نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان کی طاقت کو کم سمجھیں اور نہ ان کی مسکراہٹ پر بھروسہ کریں۔ بعض اوقات دشمن خوش اخلاقی اور مسکراہٹ سے بات کرتا ہے، لیکن پیٹھ پیچھے خنجر لیے موقع کی تلاش میں ہوتا ہے۔

رھبر معظم نے فرمایا : یہ ان کے مقاصد ہیں، لیکن وقت یہ ثابت کرے گا کہ ان شاء اللہ، ان میں سے کوئی بھی اپنے اہداف کو حاصل نہیں کر پائے گا۔ شام کے مقبوضہ علاقے بہادر شامی نوجوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوں گے؛ آپ یقین رکھیں، یہ ہوگا۔ امریکہ کا قدم بھی مضبوط نہیں رہے گا۔ خدا کی رضا اور الٰہی طاقت کے ذریعے، امریکہ بھی مقاومتی محاذ کے ذریعے اس خطے سے نکال دیا جائے گا۔

نظرات بینندگان
captcha