ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی انقلاب کی 46ویں سالگرہ اور ایام اللہ عشرہ فجر کے موقع پر، بین الاقوامی ویب نار "اسلامی انقلاب اور خاندانی شناخت کی تجدید" گذشتہ روز، خبر رساں ایجنسی ایکنا کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس میں ملکی اور بین الاقوامی خواتین محققین نے اپنے موضوعات پر تقاریر پیش کیں۔
یہ ویب نار مریم میرزائی، جو کہ ثقافتی امور کی ماہر اور "تبار" تھنک ٹینک کی ڈائریکٹر ہیں، کی شرکت سے ایکنا کے مبین اسٹوڈیو میں منعقد ہوا، جبکہ آن لائن سیشن میں مختلف ممالک کے مقررین نے شرکت کی۔
ویب نار میں انڈونیشیائی اسلامک اسکالر زینب تورسانی نے "قرآنی ثقافت اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ خاندانی انسیت"، لبنانی محقق فدوی عبدالساتر نے "اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خواتین کی نمایاں پیش رفت" اور ناروے میں اسلامی وقف کے سربراہ روافد الیاسری نے "تمدن ساز بچوں کی تربیت اور خاندان" کے موضوع پر گفتگو کی۔
زینب تورسانی کی تقریر کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہم صل علی محمد و آل محمد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں زینب، انڈونیشیا سے ہوں۔ اسلامی دنیا کا ایک حصہ ہونے کے ناطے، ہمیں اسلامی جمہوریہ ایران سے سیکھنا چاہیے کہ کس طرح اسلامی اقدار کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے، مغربی سیکولر اثر و رسوخ نے ایرانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا تھا، خاص طور پر خاندانی تعلقات کے نمونوں میں۔ لیکن انقلاب کے بعد، ایرانی حکومت نے زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی اقدار کو بحال کرنے کا عہد کیا، بشمول ہم آہنگ خاندانوں کی تعمیر۔
1979 کا اسلامی انقلاب محض ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک سماجی اور ثقافتی انقلاب بھی تھا۔ اس مناسبت سے، میں ایک اہم موضوع پر گفتگو کرنا چاہتی ہوں، جو کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خاندانوں کی قرآنی تعلیمات اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہم آہنگی ہے۔
خاندان معاشرے کی سب سے چھوٹی اکائی ہے لیکن تمدن کی تشکیل میں اس کا بڑا کردار ہے۔ اسلام میں خاندان کو ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور قرآن مجید واضح ہدایات فراہم کرتا ہے کہ ایک ہم آہنگ خاندان کیسے بنایا جائے۔
قرآن مسلمانوں کے لیے ایک مکمل رہنما ہے اور خاندان کی تشکیل کے بارے میں متعدد احکامات دیتا ہے۔ اس حوالے سے سورہ روم کی آیت 21 اکثر نقل کی جاتی ہے:
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔"
یہ آیت ازدواجی رشتے میں محبت، رحمت اور سکون کی اہمیت پر زور دیتی ہے، جو کہ ہم آہنگ خاندان کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
اسلامی انقلاب کے بعد، ایران نے ان اقدار کو خاندانی زندگی میں فروغ دینے اور ان پر عمل درآمد کی کوشش کی۔ ایرانی حکومت نے دینی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا، جیسا کہ سورہ لقمان کی آیت 13 میں بیان ہوا ہے:
"اور (یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔"
ایران میں حکومت نے خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے، جیسے کہ قرآن کی مفت تقسیم، بچوں کے لیے قرآن کی مفت تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اسلامی اقدار کے فروغ کی مہمات۔
اس کے علاوہ، ایرانی قومی پالیسیوں نے خاندانی کوششوں کو تقویت دی، جس میں قرآنی تعلیم کے فروغ اور مذہبی تقریبات میں عوامی شرکت کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔ ایران کے ذرائع ابلاغ بھی اسلامی خاندانی اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایران میں قرآنی فضا کو محبت، خاندانی قربت اور اسلامی پالیسیوں کے امتزاج کے ذریعے برقرار رکھا گیا ہے، جو اسلامی اقدار کو معاشرتی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محترم خواتین و حضرات! ایک ہم آہنگ خاندان ایک اسلامی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہر ملک، بشمول انڈونیشیا، اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خاندانی اقدار سے سیکھے اور انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں نافذ کرے۔
آپ سب کا شکریہ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔