غزہ قمار پر ٹرمپ کی شکست یقینی ہے

IQNA

غزہ قمار پر ٹرمپ کی شکست یقینی ہے

16:53 - February 14, 2025
خبر کا کوڈ: 3517977
ایکنا: سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ٹرمپ کا خیال ہے کہ ہرچیز کو قیمت دیکر خریدی جاسکتی ہے اور وہ کسی چیز کے لیے اقدام کے قائل نہیں۔

ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، صلاح الدین الجورشی نے عربی 21 نیوز ویب سائٹ پر ایک نوٹ میں فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

تقریباً 20 سال قبل، ایک نوجوان فلسطینی "لطفی الوسلاتی"، جو اس وقت ایک ہائی اسکول کا طالب علم تھا، نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا "فلسطین؛ ایک قرآنی خطہ"، جو جریدہ "21/15" میں شائع ہوا۔

حالیہ دنوں میں جب میں نے غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کی متاثر کن تصاویر دیکھیں، تو یہ مضمون میرے ذہن میں تازہ ہو گیا۔ یہ مناظر ہمیں اپنی تاریخی یادداشت کے اس حصے میں لے جاتے ہیں جب ہمارے اجداد اور والدین نے اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل دیا، اور قلیل تعداد کے باوجود دشمنوں کے خلاف کھڑے ہوئے اور اپنی قربانیوں سے معجزے رقم کیے۔

لاکھوں فلسطینی اپنے وطن کی طرف دوڑے؛ وہ کسی چیز کے خواہاں نہ تھے سوائے اس کے کہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں، جہاں سے انہیں زبردستی بے دخل کیا گیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے گھر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہوں گے، مگر اس کے باوجود ان کی سرزمین باقی ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔

تقریباً سبھی اس واپسی پر خوش تھے اور خودجوش طور پر تکبیر کہہ رہے تھے، گویا وہ کوہ عرفات سے مکہ واپس جا رہے ہوں۔ مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ معمر فلسطینی اپنے گھروں تک پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، اور ان کی روحیں بارگاہِ الٰہی میں چلی جاتی ہیں۔ وہ اپنے گھروں کو پہنچنے کی راہ میں جان دے دیتے ہیں اور اپنے گاؤں کے قبرستان سے دور دفن کیے جاتے ہیں، مگر غزہ انہیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے، اور قیامت کے دن وہ اٹھیں گے تاکہ اپنے حقوق غاصبوں سے وصول کریں۔

رسول اکرمﷺ کے صحابہ نے مکہ میں قریش کے سرداروں کے ہاتھوں جو عذاب اور اذیتیں سہیں، وہ بہت بڑی تھیں، مگر گزشتہ ڈیڑھ سال میں غزہ کے عوام جس نسل کشی کا شکار ہوئے، اس سے قابلِ موازنہ نہیں۔ یہ ایسی نسل کشی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں نہیں ملتی۔ تاہم، غزہ کے عوام ملبے سے باہر نکلے اور اس وحشیانہ حکومت کو چیلنج کیا۔ انہوں نے اپنے شہداء پر سوگ منایا، ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھا، اور دشمن کے قیدیوں کے بدلے اپنے قیدیوں کی رہائی کو ایک عظیم فتح کے طور پر دیکھا۔

یہ سب دشمن کے لیے شدید غصے کا باعث بنا۔ دشمنوں نے فلسطینیوں کو شکست دینے کے لیے ہر ممکن حربہ آزمایا، مگر بالآخر انہیں ہزیمت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔

یوں سب پر واضح ہو گیا کہ "باطل کا اقتدار لمحاتی ہوتا ہے، جبکہ حق کا اقتدار قیامت تک باقی رہے گا۔" یہ محض شاعری نہیں، بلکہ تاریخ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسی قوم ہے جو نہ بھولتی ہے، نہ مایوس ہوتی ہے، نہ بزدل ہوتی ہے، اور نہ اپنے وطن کو سستے داموں بیچتی ہے۔

یہ وہ قدریں ہیں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ جب بھی وہ مصر اور اردن کی حکومتوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے لیے مدد مانگے گا، وہ فوراً تسلیم کر لیں گے اور حتیٰ کہ ان مہاجرین کو انڈونیشیا منتقل کرنے کا بھی سوچ رہا تھا، بغیر کسی شرم کے۔

ٹرمپ وحشی سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ اور اس کے بڑے رہنماؤں میں سے ایک ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہر چیز خریدی جا سکتی ہے، خواہ وہ وطن ہو، ورثہ ہو، عقائد ہوں، اخلاقیات ہوں یا اقدار۔ ایسے لوگ ایمان، محبت اور وفاداری جیسی چیزوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ لیکن وہ بھی جلد یا بدیر سمجھ جائے گا کہ اس کی ساری شرطیں غلط ثابت ہوں گی، جیسے ماضی میں دوسرے ظالموں کے ساتھ ہوا۔ یہ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ تاریخ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔

ہم یہ توقع نہیں رکھتے کہ امریکی صدر اسلام قبول کرے گا، اگرچہ بہت سے امریکی غزہ میں رونما ہونے والے معجزات کو دیکھ کر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ تاہم، ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ظلم کبھی بھی حق کو مٹا نہیں سکتا۔

غزہ کے عوام، جن کے گھر تباہ کر دیے گئے، وہی ہیں جو اس جھوٹے نظریے کو رد کرتے ہیں، اور اپنے شہر میں رہنے پر بضد ہیں، چاہے انہیں برسوں خیموں میں کیوں نہ رہنا پڑے۔

مصر اور اردن اب کبھی بھی اس تباہی کو دہرا نہیں سکیں گے جو ماضی میں غزہ کے عوام پر مسلط کی گئی تھی۔ کیونکہ اس وقت کے حکمرانوں نے ٹرمپ کے مطالبے پر مثبت جواب دیا تھا، حالانکہ ان ممالک کے عوام نے اس بھیانک جرم میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کے عوام اور ان کی مزاحمت میں "تناسخ" کا اصول لاگو ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ نظریہ، جو بعض غیر اسلامی عقائد میں پایا جاتا ہے، کہتا ہے کہ جب کوئی مرتا ہے تو اس کی روح فنا نہیں ہوتی، بلکہ کسی اور میں منتقل ہو جاتی ہے۔

یہ بات فلسطینی عوام کے ایمان و تقویٰ پر کوئی شک پیدا کرنے کے لیے نہیں کہی گئی، بلکہ ان کی استقامت کا عملی مشاہدہ ہے۔ یہ صلابت اور طاقت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ ہر نسل کے اپنے ہیرو اور قائدین ہوتے ہیں، اور جب وہ شہید ہو جاتے ہیں تو ان کی روحیں علامتی طور پر منتقل ہو جاتی ہیں، تاکہ اگلی نسلیں کامیابی کی منازل طے کریں اور جدوجہد کا علم بلند رکھیں۔

ہزاروں فلسطینی مجاہدین، بشمول قیادت کی صفِ اول کے افراد، شہید ہو چکے ہیں، مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ان کی جگہ لینے کے لیے نئے مجاہدین غیرمعمولی رفتار کے ساتھ کھڑے ہو گئے، اور اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات کرے۔

حماس کے زوال کے بجائے، دشمن کی ہمت ٹوٹ گئی۔ اسرائیلی جب قیدیوں کے تبادلے کی تقریب دیکھ رہے تھے، تو انہیں یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ان شہداء کی ارواح سے جنگ کر رہے ہیں۔

ان تمام واقعات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ ایک قرآنی شہر ہے۔/

 

4264004

ٹیگس: ٹرمپ ، غزہ ، شکست
نظرات بینندگان
captcha