جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ اصفہان کے رکنِ علمی، حجتالاسلام حمید الہیدوست نے عید فطر کو محتاجوں کے ساتھ عملی ہمدردی کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ یہ تمام مسلمانوں کے اتحاد اور اجتماعی جشن کا دن ہے، جس میں محروم طبقہ بھی خوشیوں میں شریک ہو۔ ایکنا نیوز سے المفصطفی کے دانشور کی گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
"فطر" کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم کیا ہے اور کیا قرآن میں یہ آیا ہے؟
قرآن کریم میں "فطر" کا ذکر آیت فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (روم: 30) میں ہوا ہے، جس کا مطلب انسانی سرشت و تخلیق ہے۔ خلقت اور فطرت میں فرق یہ ہے کہ "فطرت" وہ تخلیق ہے جو انسان کے لیے مخصوص ہے، جس میں خدا پرستی، حق طلبی اور نیکی کا رجحان شامل ہے۔
عید فطر کو "عید فطرت" اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی اصل تخلیق سے جُڑی ہوئی ہے۔ نان آور (کفیل) پر واجب ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت افراد کی زکوٰۃ فطرہ ادا کرے، چاہے وہ بالغ ہوں یا نابالغ، روزہ دار ہوں یا نہ ہوں۔
عید فطر کی حکمت یا فلسفہ کیا ہے؟
اسلامی عبادات ہمیشہ کثیر الجہتی ہوتی ہیں۔ روزہ نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ انسان میں ضبط نفس اور تقویٰ پیدا کرتا ہے۔
روزے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کا تجربہ کرایا جائے تاکہ وہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کی مشکلات کو محسوس کرے۔ اسی ہمدردی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زکوٰۃ فطرہ واجب کی گئی، تاکہ غرباء بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
روزی، معنویت اور تقویٰ کی پائیداری میں کیا تعلق ہے؟
روزہ دار اللہ کے حکم پر کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے، جو ایک روحانی اور اخلاقی تربیت ہے۔ یہ محض خوراک ترک کرنے کا عمل نہیں بلکہ نفس پر قابو پانے کی مشق ہے، جو زندگی کے دیگر پہلوؤں میں بھی انسان کو وسوسوں سے بچنے کی قوت عطا کرتی ہے۔
پس، عید فطر نہ صرف رمضان کے اختتام کا اعلان ہے بلکہ یہ ایک عملی پیغام ہے کہ انسان کو ہمیشہ تقویٰ، ہمدردی اور سماجی فلاح کے اصولوں پر گامزن رہنا چاہیے۔