ایکنا نیوز- جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ جب انسان کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو وہ اپنی فطری اور غریزی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ ابتدائے زندگی ہی سے یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ اکیلا اپنی تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا، اور جیسے جیسے اس کی خواہشات بڑھتی ہیں، یہ بات وہ بہتر طور پر سمجھنے لگتا ہے۔ انسانوں کا دوسرے افراد سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے رجوع کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے، اور یہ فرق ان کے وجودی (ہستیشناسی) نظریے سے پیدا ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص خدا اور ماورائے فطرت (مابعد الطبیعی) امور پر ایمان نہ رکھتا ہو، یا ان سے غافل ہو، تو وہ اپنی طاقت کے بل پر دوسروں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی کوشش کی انتہا یہ ہو سکتی ہے کہ وہ طاقت کے استعمال یا اسلحہ کے ذریعے دوسروں سے جبری خدمت لے۔ لیکن جو لوگ کسی نہ کسی طرح ماورائے طبیعی عوامل پر ایمان رکھتے ہیں، وہ مختلف انداز سے ان سے مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں — اگرچہ ان کا عقیدہ باطل ہی کیوں نہ ہو۔ مختلف قسم کی بت پرستی اور شرک بھی اسی سے جنم لیتے ہیں؛ مثلاً کچھ لوگ جنات سے رابطہ قائم کرکے ان سے اپنی ضرورتیں پوری کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ مردوں کی پناہ لیتے تھے تو وہ ان کی سرکشی کو بڑھا دیتے تھے" (سورۂ جن: 6)۔
انبیاء اس لیے آئے تاکہ انسانوں کو خدایِ متعال کی طرف متوجہ کریں اور یہ حقیقت واضح کریں کہ خدایِ متعال ہر ایک سے بہتر انسان کی مدد کر سکتا ہے۔ انہوں نے خدا سے تعلق کے طریقے دکھا کر لوگوں کو اس حقیقت کی طرف بلایا کہ بجائے بتوں یا جنوں کی پناہ لینے کے، خدا پر بھروسہ کریں۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس بات کا قائل ہو کہ خدا کی زندگی میں کوئی مؤثر حیثیت ہے، یعنی خالق ہونے کے عقیدے کے بعد ربوبیتِ الٰہی پر بھی یقین رکھے۔
درحقیقت، خدا کے دنیا پر اثرانداز ہونے کے صحیح تصور کا ہونا، توکل کے لازمی شرائط میں سے ہے۔ جو کچھ خدایِ متعال نظامِ ملکوت کے ذریعے (جو تمام نظاموں سے بالاتر ہے) پیدا کرتا ہے، وہ کسی چیز کے زیرِ اثر نہیں آتا، اور کوئی دوسرا سبب اسے مغلوب نہیں کر سکتا: "اور اللہ کو آسمانوں اور زمین میں کسی چیز کے عاجز کرنے کی قدرت نہیں، بے شک وہ علم والا، قدرت والا ہے" (سورۂ فاطر: 44)۔
لہٰذا، اگر ہم اس عقیدے تک پہنچ جائیں کہ قدرتِ الٰہی کے ایسے نظام بھی موجود ہیں جو اسبابِ طبیعی کے ماورا ہیں، تو پھر ہم میں یہ امید پیدا ہو سکتی ہے کہ ہم توکل کی حقیقت کو پا لیں۔ جتنا زیادہ انسان کے عقائد اس میدان میں پختہ ہوں گے، اتنا ہی اس کا توکل بلند تر ہو گا۔