ایکنا: انسان کی بعض معرفتیں جو کائنات اور خداوند متعال کے بارے میں حاصل ہوتی ہیں، مخلوق سے ناامیدی اور معبود حقیقی کی طرف رغبت کا باعث بنتی ہیں۔ حقیقت میں یہ آگاہی انسان کو ایسے وجود کی طرف رہنمائی کرتی ہے جس پر تنہا اور مکمل طور پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے:
«وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ» (ابراہیم: 12)۔ ان اعتقادات کے نتیجے میں انسان حق کے راستے پر چلنے اور اس میں قدم رکھنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔
جب انسان راہِ حق میں قدم رکھتا ہے تو راستے میں مشکلات اور آزمائشیں سامنے آتی ہیں، جن کے مقابلے میں ایک متوکل انسان صبر، عزت، شجاعت اور تقویٰ کے ساتھ ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی معرفتی بنیادیں، اس کے عزم کے ساتھ جڑ کر توکل کے عملی تقاضوں پر منتج ہوتی ہیں۔
خداوند متعال سورہ توبہ میں سب سے پہلے نبی اکرمؐ کی مہربانی اور لوگوں کی ہدایت کے لیے ان کی شدید خواہش کا ذکر کرتے ہیں: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ» (توبہ: 128)۔ اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ رسولؐ کی یہ کوششیں اور محبت لوگوں کی کسی ذاتی ضرورت کی بنا پر ہیں، بلکہ اگر تمام لوگ ان سے منہ موڑ لیں تو بھی خدا ان کے ساتھ ہے۔ وہ خدا جو پوری کائنات کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے، ایک چھوٹے سے انسان کو اپنی عنایت میں رکھ سکتا ہے:
«فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» (توبہ: 129)۔
اسی طرح سورہ احزاب میں فرمایا گیا: «وَ لَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ دَعْ أَذَاهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا» (احزاب: 48)۔ یعنی کفار اور منافقین کی ایذا رسانیوں اور رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرنا، ان کی خواہشات کے سامنے ہمت نہ ہارنا اور ان کے برتاؤ سے دل شکستہ نہ ہونا، خدا پر مکمل توکل کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ خدا بہترین کارساز اور محافظ ہے۔ درحقیقت، اس توکل کے عملی تقاضے صبر، عزت کے ساتھ ثابت قدمی، اور انجام کی فکر سے بے خوفی ہیں۔