ایکنا نیوز، الجزیرہ ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں فلسطینِ اشغالی میں صہیونی خاخاموں کے ابھرنے، ان کے طاقتور ہونے اور اس خطے کی تقدیر پر ان کے اثرات کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ رپورٹ کے پہلے حصے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
مارچ 2024 میں، خاخام "الیاہو مالی"، جو یافا میں شیرات موشے دینی مدرسے کے سربراہ ہیں، نے غزہ کے تمام باشندوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل عام کا مطالبہ کیا اور اسے یہودی مذہب کی تعلیمات کے مطابق قرار دیا۔ انہوں نے غزہ کے خلاف جنگ کو ایک مذہبی جنگ قرار دیا اور کہا کہ غزہ کی پٹی میں کوئی بھی شخص زندہ نہ بچے!
یہ فتویٰ، جسے الیاہو نے دینِ یہود کے مطابق قرار دیا، خاخاموں اور اسرائیل میں خاخامی ادارے کی تاریخ کو اجاگر کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ گزشتہ 100 سالوں یا اس سے زائد عرصے میں کس طرح ایک انتہا پسند دائیں بازو کا دھارا تشکیل پایا جو وقت کے ساتھ صہیونی ریاست کے پس پردہ اصل طاقت بن گیا۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ خاخاموں نے کس طرح سیکولر صہیونی تحریکوں سے اپنے مقاصد کے لیے فائدہ اٹھایا؟ اور ماضی و حال میں اسرائیل میں اس مذہبی صہیونی تحریک کو نمایاں کرنے والی چیز کیا تھی؟
خاخام زوی ہیرش کالیشر (1795-1874ء)، ایک جرمن آرتھوڈوکس یہودی تھے جو تھیوڈور ہرزل (سیاسی صہیونیت کے بانی) سے بھی پہلے ایک روشن خیال اور جری مفکر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک گہرے مذہبی نظریے کے تحت یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کا مطالبہ کیا اور زور دیا کہ اس سرزمین کی طرف ہجرت محض ایک عملی آپشن نہیں بلکہ ایک روحانی فریضہ ہے، جو الٰہی رسالت کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
1898ء میں روس میں ایک صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 140 نمائندوں میں سے 14 خاخام شریک تھے، جنہیں خاخام اسحاق یعقوب رینس نے "مزراحی" پارٹی کے بینر تلے متحد کیا۔ یہ پارٹی مذہبی صہیونیت کے نظریے پر مبنی پہلی سیاسی جماعت تھی۔ اس نے یہودی حکمرانی کے قیام اور "اسرائیل" کے قیام کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا، بغیر اس کے کہ مسیح موعود کے ظہور کا انتظار کیا جائے۔
انیسویں صدی میں مشرقی یورپ میں، سخت گیر آرتھوڈوکس یہودی روایات، جو واپسی کو مسیح کے ظہور سے مشروط سمجھتی تھیں، غالب آگئیں۔ ایسے میں مذہبی صہیونیت ایک اعتدال پسند تحریک کے طور پر ابھری جس نے مذہبی ایمان اور صہیونی امنگوں کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی۔
یہ تحریک "منتخب قوم" اور "سرزمین موعود" کے دو بنیادی تصورات پر انحصار کرتی تھی، جو خاخام ابراہام کوک جیسے مفکرین کے نظریات سے ماخوذ تھے۔ ابراہام کوک مذہبی صہیونیت کے روحانی باپ سمجھے جاتے ہیں، جو فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کو توبہ اور الٰہی نجات کے ساتھ جوڑتے تھے۔
صہیونی مذہبیت اسرائیلی ریاست کے سائے میں:
اسرائیل کے قیام کے بعد، مذہبی صہیونیت نے سرکاری اور قومی اداروں جیسے "بیت الخاخام" (بڑا خاخامی ادارہ)، وزارتِ مذہبی امور اور فوج میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھایا۔ ہر شہر اور قصبے میں ایک خاخام تعینات تھا اور ہر فوجی ادارے کا بھی ایک مخصوص خاخام ہوتا تھا۔
اگرچہ مذہبی وجوہات کی بنا پر شروع میں یہودی مذہبی افراد فوج میں خدمات انجام دینے کے خواہاں نہیں تھے، لیکن 1965ء میں خاخام زوی کوک کے فتوے کی حمایت سے، جس نے فوجی خدمت کو ایک مذہبی فرض قرار دیا، صورتِ حال بدلی۔ اس کے نتیجے میں مخصوص مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی دی جانے لگی، جس سے مذہبی یہودیوں کا ریاستی و عسکری ڈھانچے میں انضمام ممکن ہوا۔
1967ء کی جنگ، جس کے نتیجے میں قدس، الخلیل، مغربی کنارہ، جولان اور سینا پر قبضہ ہوا، صہیونیوں کے لیے ایک بنیادی موڑ تھا۔ خاخام زوی کوک، جو خاخام ابراہام کوک کے بیٹے تھے، نے اس واقعے کو ایک الٰہی فتح قرار دیا اور مقدس سرزمین کی مذہبی قدر کو مزید اجاگر کیا۔ اس تصور نے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کو مزید تقویت دی۔/
4277647