ایکنا: لبنانی مصنف، محقق اور قرآنی علوم کے ماہر توفیق حسن علویہ نے شہید جمہوری اسلامی، خادمالرضا(ع) آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک یادداشت میں ایکنا کو لکھا:
میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں اور نبی اکرم حضرت محمدﷺ اور ان کے اہل بیت اطہارؑ پر درود بھیجتا ہوں۔
بعض افراد کی خاص خصوصیات ہی انہیں اخلاقی و انسانی بلندیوں پر فائز کرتی ہیں، اور تاریخ نے ایسے عظیم و ممتاز شخصیات کو دیکھا ہے جن کی خوبیاں سخت ترین اور بحرانی حالات میں سامنے آئیں۔ ان میں ایک نمایاں مثال شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی ہے، جنہیں اللہ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آیت اللہ رئیسی کی شخصیت میں کئی نمایاں صفات تھیں، جیسے کہ:
· حکمت و دانائی
· شجاعت
· عمدہ انتظامی صلاحیت
· زمان و مکان کی مکمل شناخت
· عالمی حالات و تناظر اور خاص طور پر محورِ مزاحمت اور محورِ شرارت (یعنی امریکہ، اسرائیل اور ان کے آلہ کار) کے درمیان جاری تنازعات کے اثرات و نتائج سے گہری واقفیت۔
شہید رئیسی ایک بلند پایہ عالم، فقیہ اور فقہ و اصول کے تمام علوم میں مہارت رکھنے والے شخص تھے، جس کی گواہی ان کے اساتذہ بھی دیتے ہیں۔ وہ اپنی دینی علمی حیثیت کے ساتھ ساتھ جامعہ جاتی تعلیم میں بھی اعلیٰ مقام کے حامل تھے، اور یوں انہوں نے دینی اور جدید علوم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی۔
وہ آستان قدس رضوی کی تولیت، عدلیہ کی سربراہی اور صدارت جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے، لیکن ان کی انکساری و خلوص برقرار رہا۔ وہ ہر وقت یہ یقین رکھتے تھے کہ اقتدار اور اختیارات خدمتِ خلقِ خدا کے لیے ہیں، اور اسی لیے وہ اپنی پوری طاقت مظلوموں اور مستضعفوں کی مدد پر صرف کرتے رہے۔
بطور صدرِ مملکت، شہید رئیسی کی کارکردگی کامیاب رہی۔
· عوام کی معیشت میں استحکام رہا
· وہ ذاتی طور پر عوام کے درمیان جا کر ان کے مسائل سنتے اور حل پیش کرتے
· انہوں نے اپنی حکومت کے لیے بہترین ٹیم منتخب کی
· ان کے ساتھ شہید وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان جیسے افراد بھی شامل تھے۔
قرآنی میدان میں، وہ پہلے صدر تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں قرآن کو بلند کر کے اس کی عظمت کا دفاع کیا۔ ان کی قرآن بلند کرتے ہوئے تصویر آج بھی دنیا کی نگاہوں میں زندہ ہے، اور انہیں قرآن کے بہترین حامی و مدافع کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ" یعنی: وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں۔
شہید رئیسی کی زندگی جہادی روح سے بھرپور تھی۔
اقوام متحدہ میں شہید قاسم سلیمانی کی تصویر بلند کرنا،
آذربائیجان میں شہادت سے قبل صہیونیوں کے خلاف تقریر یہ سب واقعات دنیا کے ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہوں گے۔ ایران کی جانب سے صہیونیوں کے خلاف فوجی ردعمل بھی ان کے دور صدارت میں ہوا۔
فلسطین کا مسئلہ ان کی جہادی زندگی کا اہم حصہ تھا۔ انہوں نے 11 نومبر 2023 کو ریاض میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں طوفان الاقصیٰ اور صہیونی مظالم کے حوالے سے تاریخی تقریر کی، جس میں درج ذیل نکات نمایاں تھے:
1. مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا پہلا مسئلہ ہے
2. اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا کردار فلسطین کے حل میں غیر مؤثر رہا ہے
3. اسرائیل کے خلاف متحدہ اور مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت
4. امریکہ کی صریح مخالفت، کیونکہ اسرائیل کے فیصلے وہیں سے طے پاتے ہیں
5. جعلی صہیونی ریاست کی پالیسیوں پر کھلا انتباہ
6. غزہ پر جنگ کا فوری خاتمہ
7. صہیونی محاصرے کو توڑنے کے لیے عملی اقدامات
8. صہیونی فوج کا فوری انخلا
9. فلسطینی عوام کے تحفظ کا بندوبست
10. صہیونی ریاست کی مکمل بائیکاٹ
11. صہیونی فوج کو دہشت گرد فوج قرار دینا
12. اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت کا قیام
13. غزہ کی مزاحمت کی مکمل حمایت
14. فلسطینی ریاست کے قیام اور قابضین کے اخراج کا مطالبہ
15. غزہ کی تعمیر نو کے لیے فنڈ کا قیام
16. فلسطینی عوام کی مزاحمت کی حمایت کے لیے افرادی قوت کی روانگی
17. غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر "عالمی یوم نسل کشی" کا اعلان
18. فلسطینیوں کو اپنی دفاعی قوت کے لیے مسلح کرنے کی تجویز
یہ تمام نکات اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ شہید سید ابراہیم رئیسی صرف ایک سیاستدان نہیں، بلکہ ایک جہادی، قرآنی اور ولائی شخصیت تھے جن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔/
4221561