ایکنا نیوز- حجتالاسلام والمسلمین شیخ عبداللہ دقاق، بحرین میں شیعہ مسلمانوں کے ایران میں نمائندہ اور ممتاز عالم دین نے وبینار "امام خمینی کبیر؛ اسلامی دنیا میں تبدیلی کا نمونہ" میں خطاب کیا، جو امام خمینیؒ کی ۳۶ویں برسی کے موقع پر نیوز ایجنسی ایکنا کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اُن کا موضوع تھا: "حج اور امام خمینیؒ کی فکر میں اسلامی تحریک کی توسیع"۔ اس موقع پر انہوں نے امام راحل کے فقہی اور سیاسی نظریات کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ان کے خطاب کی ویڈیو فارسی سب ٹائٹل کے ساتھ پیش کی گئی۔
شیخ دقاق کے خطاب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحیم
خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے:
"وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ" یعنی: "یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں" (سورہ توبہ، آیت ۳)۔
امام خمینیؒ کے افکار کے مطابق، برائت از مشرکین کے بغیر حج کی کوئی معنویت نہیں۔ حج ایک ایسا فریضہ ہے جو عبادت اور سیاست کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ناقابلِ تقسیم ہے۔
اسلام میں "لا الٰہ الا اللہ" ایک عقد سلبی ہے، یعنی غیر خدا کی الوہیت کا انکار۔ "اللہ" پر ایمان ایک عقد ایجابی ہے، یعنی واحد و یکتا خدا کی عبادت کا اقرار۔ حج بھی اسی اصول پر قائم ہے:
· عقد ایجابی: طواف، سعی، عرفات و مشعر و منیٰ میں وقوف، قربانی — یہ سب خالص عبادات ہیں۔
· عقد سلبی: شرک اور مشرکین سے اظہارِ بیزاری۔
امام خمینیؒ کے مطابق، حج میں صرف عبادات پر اکتفا کرنا اور برائت کو چھوڑ دینا ناقص حج ہے۔ جیسے قرآن کہتا ہے:
"إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ" (بقرہ: ۱۵۸) "وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ" (حج: ۲۹)
یہ تمام اعمال عقد ایجابی کو ظاہر کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی قرآن واضح کرتا ہے کہ مشرکین سے بیزاری بھی لازم ہے۔
حج محض فردی عبادت نہیں بلکہ امت کی وحدت کا مظہر بھی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آل عمران: ۱۰۳) "إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً" (انبیاء: ۹۲)
حج مسلمانوں کی طاقت، اتحاد اور استکبار کے خلاف قوت کا مظاہرہ ہے۔ امام خمینیؒ اسے ایک الٰہی سیاسی عمل تصور کرتے ہیں۔
حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں:
"حج اور عمرہ پر جاؤ تاکہ صحت پاؤ اور اہل خانہ کی روزی حاصل کرو۔"
یعنی حج:
· جسمانی صحت لاتا ہے
· رزق میں کشادگی کا سبب بنتا ہے
· اور دین کے ارکان میں سے ہے: نماز، روزہ، زکات، حج اور ولایت۔
یہی روایت امام باقرؑ سے اصول کافی میں بھی نقل ہوئی ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
"لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ" (حج: ۲۸) یعنی: "تاکہ وہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں"۔
حج کی دعوت حضرت ابراہیمؑ کے ذریعے ہوئی:
"وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ..." (حج: ۲۷)
دسویں ذوالحجہ کو قربانی کی رسم، حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی اطاعت اور ایثار کی یاد ہے:
"وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ"
یہ ہمیں تسلیم، اطاعت اور قضا و قدر پر رضامندی سکھاتا ہے، جیسا کہ امام حسینؑ نے کربلا میں فرمایا:
"اے میرے رب! میں تیرے فیصلے پر صبر کرتا ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، جب تک تو راضی ہو۔"
حج کے لیے عمومی شرائط: بلوغ، عقل اور اسلام ہیں، جو تمام فرائض کے لیے لازم ہیں۔ خصوصی شرط: استطاعت یعنی مالی، جسمانی و سفری طاقت۔ قرآن فرماتا ہے:
"وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا" (آل عمران: ۹۷)
انہوں نے آخر میں دعا کی کہ : اللہ ہمیں وہ سب کرنے کی توفیق دے جو اسے پسند اور محبوب ہو، اور محمدﷺ و آل محمد پر درود و سلام ہو۔/
4285958